ٹرمپ کی کھردری کھردری باتیں

غلطی ہماری ہے، ٹرمپ کی نہیں ،ا س نے الیکشن مہم کے دوران اپنا ذہن دنیا کے سامنے کھول دیا تھا، مگر کسی نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا، بس اس کی ہنسی مذاق سے سبھی دل لبھاتے رہے، حالانکہ اس کی گفتگو سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ بائولے پن کا شکار ہے۔ہم نے بس اسے بیوقوف ہی سمجھا اور الیکشن مہم کے مزے لیتے رہے، ہیلری کلنٹن کی جیت پر ٹائم میگزین اپنی ٹائٹل اسٹوری بھی چھاپ چکا تھا، یہ پورا پرچہ اسے مارکیٹ سے واپس لینا پڑا۔

ریاض کانفرنس میں کوئی عجوبہ نہیںہوا۔ وہی ٹرمپ تھاا ور وہی اس کی باتیں، ہمیں بہت کھردری محسوس ہوئیں۔ مراکش کی اسلامی کانفرنس میں مسجد اقصی کی آتشزدگی پر غور کیا جارہا تھا توا س میں بھارتی مندوب کو بلا لیا گیا تھا مگر ریاض کانفرنس میں تو بھارت کے کسی بندے کا دوردور تک نام و نشان نہ تھا، نہ بھارت میں کوئی ایسی دہشت گردی ہو رہی ہے کہ ٹرمپ نے بھارت کو دہشت گردی کا نشانہ قرار دے ڈالا، وہ لندن کی بات کرتا،سپین کی بات کرتا، فرانس کی بات کرتا، بلجیئم کی بات کرتا تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی کہ یہاں دہشت گردی کی وارداتیں ہو تی رہی ہیں۔ وہ مانچسٹر میں دہشت گردی کی پیش گوئی کرتے تو ہم انہیں غیبی علم کا ماہر سمجھتے۔سی آئی اے کے سابق سربراہ کو بھی غیب کا علم تھا کہ اس نے کہہ دیا اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے،،پھر انہیں اس کے ٹھکانے کا بھی پتہ چل گیا۔ا ور آسمانوں سے میرین اترے اور اسامہ کو گولی کانشانہ بنا کر اس کی لاش اچک لے گئے۔ ہمیں کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی۔
اب ٹرمپ سے کون پوچھے کہ چودہ برس سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ ہے، اس کے گھروںمیں اسی ہزار لاشیںآئیں،بھارت نے اس دوران کشمیریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ یہ سلسلہ نوجوان برہان وانی کی شہادت سے چلا اور ابھی تک چلا جا رہا ہے، رکنے کا نام تک نہیں لیتا، بھارتی فوج نے ہزاروں افراد کو پیلٹ گولیوں سے اندھا کر دیا، ان میں تین سال کے بچے بھی شامل ہیں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی، کیا ان کا قتل عام کرنے والا اور ان پر جبر کرنے والا دہشت گردی کا شکار ہے یا خود بہت بڑا دہشت گرد ہے، یہ سوال کم از کم سعووی شاہ سلمان کو تو اپنے مہمان سے پوچھنا چاہئے تھا کہ حضرت، پاکستان کا ذکر کیوں گول کر گئے۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمیں جنرل راحیل شریف کوواپس بلا لینا چاہئے، اس جرنیل کو کسی نوکری کی ضرورت نہیں، پوری عمر عزت کے ساتھ گزاری ، اب پاکستان کو ٹرمپ بے توقیر کر گیا ہے اورا س سرزمین پر کر گیا جس کی حفاطت کے لئے جنرل راحیل نے نئی نوکری کی ہے ،ا نہیں اس نوکری پر تین حرف بھیجنے چاہیئں، بہت عزت افزائی ہو گئی پاکستان کی۔ راحیل صاحب تو جانتے ہیں کہ بھارت دہشت گردی کا شکار ہے یا دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ حقیقت سعودیوں پر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کس پل صراط پر لٹکا ہوا ہے ،اس پل صراط کے نیچے دہشت گردی کا الائو بھڑک رہا ہے۔
بھارت کا ذکر آخر ہوا تو کیسے، کیا بھارت نے ریاض کانفرنس کے سامنے اپنی مظلومیت کا کوئی رونا رویا تھا، کوئی عرضداشت پیش کی تھی،کوئی ڈوسیئر ارسال کیا تھا۔ ٹرمپ کی زبان ذرا بھی نہیں لڑ کھڑائی ، اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ بھارتی حاضر سروس نیوی افسر کل بھوشن را کے ایجنٹ کے طور پر پاکستان گھساا ور پکڑا گیا ، اب بھارت ، اس کی جان بچانے کی فکر میں ہوش وحواس کھو بیٹھا ہے مگر ٹرمپ کے ریمارکس اسے گھی شکر کی طرح لگے ہیں، وہ ا ور شیرہو جائے گا اور درندگی کی ا نتہا کر دے گا، اس دنیا میں جو سب سے زیادہ دہشت گردی کامرتکب ہے ، وہی سب سے زیادہ شور مچاتا ہے کہ اسے دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے، امریکہ نے آدھی مسلم دنیا تہس نہس کر ڈالی ہے، صدر بش، صدر اوبامہ برسوں تک مار دھاڑ کرتے رہے اور نجانے کب وہ اپنے ہاں امن قائم کر سکیں گے، جب تک ان کے ہاں امن نہیں آتا وہ مارا ماری جاری رکھیں گے۔
ویسے ہمارے ہاں کوئٹہ کے وکیلوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا توہم نے انٹیلی جنس چیف کی جان کھا ماری ۔ آخر اسے بدل کر چھوڑا مگر امریکہ میںنائن الیون ہوا، بھارت میں ممبئی سانحہ ہوا، سپین میں ریل گاڑیوں کو اڑایا گیا، لندن میں سیون سیون ہوا،، بلجیئم میں ایئر پورٹ کو اڑایا گیا ، فرانس دو تین مرتبہ زخم کھا چکا ہے، ان ملکوںنے اپنی انٹیلی جنس کو برا بھلا نہیں کہا، کیوںنہیں کہا، انہیں ہمارے سیاستدانوں کی شاگردی کرنی چاہئے کہ اپنی صفوں کو کیسے لتاڑتے ہیں ، پورس کے ہاتھیوںنے اپنے لشکر کو روندا تھا یاہم اپنے لشکر کے درپے ہیں۔
؎ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی پر کوئی بر افروختہ نہں ہوتا، امریکہ میں پاکستانی سفیر نے دو روز پہلے کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ ،نواز ملاقات نہیں ہو گی، کیوںنہیں ہو گی، اس کا جواب انہوںنے نہیں دیا اور اب تک کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں،یہ فارن پالیسی کی ناکامی ہے کہ آپ فرنٹ لائن سٹیٹ ہوتے ہوئے پس پشت دھکیل دیئے جائیں، واشنگٹن میں پاکستان سفیر کاا ور کام ہی کیا ہے، کیا گل چھرے اڑانا اور یہ ٹویٹ کرنا کہ نواز ٹرمپ ملاقات نہیں ہو گی۔
میرے بڑے بھائی میاں محمد دن رات سوشل میڈیا پر بیٹھے رہتے ہیں، میں نے انہیں خبردار بھی کیا ہے کہ اب لوگوں کو غائب کیا جارہاہے مگر وہ مانتے ہی نہیں اور اپنے تبصرے کئے جا رہے ہیں ، انہوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیادہشت گردی بارے اسلام کے نظریئے اور موقف کی تشریح امریکی صدر سمجھائے گا، پاکستان جس نے دہشت گردی کو کچل ڈالا ہے، کیا وہ اس کا ذکر گول کرکے ہمارے حوصلے پست کر سکے گا۔ بات تو ٹھیک ہے، ٹرمپ نے ہمارے سامنے تبلیغ کی کہ مسلمان ۔ عیسائی ا ور یہیودی متفق ہو جائیں تو دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ کیا یہ بات انہوںنے اسرائیل میں جا کر کی ہے، کیا ویٹی کن میں کریں گے اور ٹرمپ نے ہندو کا ذکر کیوںنہیں کیا جو بر صغیر سے بھی باہر تک دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی ہے، پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو تو برطانیہ کا اصول تھا، امریکہ کاا صول یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور قتل عام کروائو۔ ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، نسل، صوبہ، علاقہ کے تعصبات کا شکار ہیں ، اب وہ ہمیں ایران سے لڑانے پر تلا ہوا ہے، کہتا ہے ، ایران کو تنہا کر دو، امریکہ نے برسوں تک ایران کا حقہ پانی بند کئے رکھا، مگر ایران تنہا نہیں ہوا، ایران اور عراق کی جنگ کا تماشہ دیکھا مگر ایران تنہا نہیں ہوا، مسلم دنیا کو ٹرمپ کے جھانسے میں نہیں آنا چاہئے، اس نے کڑوی کسیلی، کھردری باتیں کر کے مسلمانان عالم کی دلا ٓزاری کی ہے مگر ہمیں چوکنا رہنا چاہئے ا ورا سکے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہئے ۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...