غزہ، ریاض (نوائے وقت رپورٹ، بی بی سی، آن لائن) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے ملاقات کی۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہم اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے پر عملدرآمد کے خواہاں ہیں، اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرونگا۔ صدر محمود عباس نے مسئلے پر پرخلوص کوشش کی یقین دہانی کرائی ہے۔ٹرمپ نے کہا خطے میں امن کیلئے محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں کانفرنس تاریخی تھی۔ عرب رہنماؤں کو کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہو گا۔ تمام ممالک کو مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ فلسطین کے ساتھ مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے۔ دہشتگردوں کے نظریات کو ختم کر کے دم لیں گے۔ معصوم جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ دہشتگردی کے ہوتے ہوئے کبھی ا من نہیں آسکتا۔ فلسطین کیلئے جو کر سکتا ہوں کروں گا۔ تمام عالمی رہنماؤں کو دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوششوں کی دعوت دیتا ہوں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بات کے شکر گزار ہیں کہ صدر عباس نے دہشت گردی کے خلاف ضروری اقدامات اٹھانے کا عہد کیا ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین پر زور دیا امن کیلئے سمجھوتہ کریں۔ ایران سمیت دشمنوں سے اسرائیل کا دفاع کرینگے، امن کا قیام آسان نہیں، اسرائیل کو ایران، حزب اللہ، حماس سے خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر عباس نے اس بات کی یاد دہانی کروائی ہے کہ وہ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے نیک نیتی سے کام کریں گے اور صدر ٹرمپ کو اسرائیلی وزیراعظم نے بھی اس بات کا یقین دلایا۔ ٹرمپ کے دورے کے خلاف فلسطینیوں نے غزہ پٹی اور عرب اردن میں مظاہرے کئے ہیں۔ امریکی صدر نے بیت المقدس میں ہولو کاسٹ میموریل پر پھول رکھے، فلسطینی اتھارٹی کے استقبالیہ بینر پر انہیں ’’مین آف پیس‘‘ قرار دیا گیا، روم چلے گئے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ہم بیت لحم سے ایک محفوظ مستقبل کی دعوت دے رہے ہیں۔ امن کی آمد ناگزیر ہے اور اس کو یقینی بنانے کیلئے عزیمت کی ضرورت ہے میں صدر عباس کے تعاون سے فلسطینی معیشت کی سپورٹ کیلئے کام کروں گا۔ ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ امریکا فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور پورے مشرق وسطی کیلئے ایک محفوظ مستقبل فراہم کرنے میں مدد کا خواہش مند ہے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ ’’ہم اسرائیل کے ساتھ تاریخی امن معاہدے کے متمنی ہیں۔ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ تنازعہ مذاہب کے درمیان نہیں ہے بلکہ ہم سب کے ساتھ مکالمے کا باب کھولنا چاہتے ہیں ہمارا مسئلہ غاضب قبضہ، یہودی بستیاں اور اسرائیل کا ہماری ریاست کو قبول نہ کرنا ہے۔ ہمیں یہودی مذہب کے ساتھ نہیں بلکہ قابض حکام کے ساتھ مشکلات ہیں’’ عباس کا کہنا تھا کہ در حقیقت 1967ء کی بنیاد پر دو ریاستی حل اور بین الاقوامی قانونی قراردادیں ہی فلسطینیوں کے لئے امن کی ضامن ہیں۔ فلسطینی قوم کی آزادی اور خود مختاری دنیا میں امن کی گنجی ہے۔