جگنو محسن کے کئی حوالے ہیں سب سے اہم حوالہ ظاہر ہے' ان کے شوہر نجم سیٹھی کا ہے ا±ن کے والد محسن شاہ کا شمار بڑے اور معروف زمینداروں میں ہوتا تھا۔نجم سیٹھی ہر ما حول میں ڈھل جاتے ہیں ۔کبھی ان کی جناب نوازشریف سے دشمنی کا یہ عالم تھا کہ نامعلوم بندی خانے میں ادویات لے جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے اس دور بحران یہ کالم نگار اپنے ایک سرکاری افسر دوست کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ادویات کی وہ تھیلی وہاں ر±ل رہی تھی افسروں کی، قیدی نجم سیٹھی کے بارے میں باتیں سن کر آگ بگولا ہوگیا جب تک ادویات نجم سیٹھی تک نہیں پہنچ گئیں مجھے قرار نہیں آیا تھا پھر وہی نجم سیٹھی نوازشریف کی ناک کا ایسا بال بنے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے عبوری دور کے لئے نامزد وزیراعلی قرار پائے پھر بقول عمران خان 2013 کے عام انتخابات میں 35 پنکچر لگانے کے چکر میں کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن گئے اور ان کے دوسرے رفیق کار بریگیڈئیر رانجھا پنجاب کو کرپشن فری بنانے کے مشن پر لگ گئے۔
اب وہی نجم سیٹھی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے سندِتعریف پاتے ہیں تو دوسری طرف نوازشریف کی آنکھ کے تارے ہیں اور زرداری صاحب کے پیارے تو وہ ہمیشہ سے رہے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کتابوں کی اشاعت سے لے کر صحافت کے کوچہ میں سرگرم عمل رہے۔ اب دونوں کا التفات سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں ہورہا ہے۔جگنو کا کام روشنی پھیلانا ہوتا ہے، محترمہ جگنو محسن کونسی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ ان کے حالیہ فرمودات سے عام فہم یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بھارت میں ممبئی حملوں کے موقع پرجنگجو گروپ نے مرکزی کردار اجمل قصاب کو پاکستان کے فرید کوٹ سے جس چابکدستی سے ’برآمد‘ کرلیاتھا، یہ معلومات جگنو محسن تھیں۔ ان کی اپنی زبانی بیان کردہ کہانی ملاحظہ کریں اور پھر خود نتیجہ اخذ کرلیں۔
مادام جگنو محسن فرماتی ہیں کہ ’فرید کوٹ میرے آبائی گا¶ں سے دس میل دوری پر واقع ہے۔1980ءسے میرے والد نے اس ضلع میں پینتیس چالیس سکول بنائے تاکہ غریب غرباءتعلیم حاصل کرسکیں۔
2000ءمیں فرید کوٹ میں ہم نے سکول بنوایا۔ جس دن (ممبئی حملوں کا) یہ واقعہ ہوا، اسی دن میں نے اپنے کام کرنے والوں کو بھجوایا کہ معلوم کریں اصل واقعہ کیا ہوا ہے؟ فرید کوٹ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ امیر قصائی کون ہے؟ مائی نورفاطمہ کون ہے؟ اجمل کون تھا؟ تین چار سال پہلے (ا±سے گا¶ں سے ) لوگ لے گئے۔ وہ چھ ماہ پہلے (گا¶ں واپس) آیا۔ اپنی ماں سے کہا یہ میرے سر پر ہاتھ رکھو۔ میں کشمیر فتح کرنے جا رہا ہوں۔ ا±س (اجمل) نے (ماں کو ) کچھ پیسے دئیے اور کہاکہ میری بہن رقیہ کو بیاہ دینا۔ یہ ساری باتیں وہاں بچے بچے کو پتہ ہیں۔ اب یہاں ان چیزوں سے ہم انحراف کرنا شروع کردیں۔
وہ لوگ (اجمل قصاب کے اہلخانہ) وہاں سے غائب ہیں۔ وہ غریب لوگ ہیں۔ روتے پیٹتے (اپنے گا¶ں سے) نکلے۔ یہ باتیں چھپائی نہیں جا سکتیں۔ ہمیں وہاں کے لوگ چ±پکے سے بتادیتے ہیں۔ چھپانے کی کوشش کریں تو ذہن میں مزید شک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو یہ طریقہ نہیں اس مسئلہ سے نمٹنے کا۔نسخہ کیمیا بیان کرتے ہوئے محترمہ جگنو محسن نے ’انکشاف‘ کیا کہ ’یہ ہندوستان اور بین الاقوامی دنیا کی بھی توقع ہے اگرآپ یہ نہیں کریں گے تو حالات بہت بگڑ جائیں گے۔
جنگ نہیں بھی ہوگی تو بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو وہاں کے لوگوں نے ہمیں باور کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حالات بگڑ چکے ہیں۔ آپ کا تو اپنی ریاست پر قابو نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ (پاکستان پر) پابندیاں لگ جائیں۔ یا بندش (Blockade) ہوجائے۔ (توہماری حالت یہ ہے کہ) چھ دن کا تو تیل نہیں (پاکستان کے پاس)۔ معیشت کی حالت پہلے ہی دگرگوں (گری ہوئی) ہے۔ روٹی کھانے کو نہیں۔ آٹا نہیں۔ گیس نہیں۔ بجلی نہیں۔ تیل نہیں۔ کچھ ہوگیا تو کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ جنگ برداشت کریں؟ پابندیاں برداشت کریں ؟ بلاکیڈ برداشت کریں؟ حل بھی تجویز کیا کہ ’ہمیں reasonable, responsible sovereing state? بن کے رہنا ہوگا۔
اگر یہ ہمارے دانشوروں کا بیانیہ ہے تو ہمارا بیانیہ کیا ہے۔ حرف آخر یہ کہ نجم سیٹھی جنرل قمر جاوید باجوہ سے تعریفی سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد اعلان فتح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس نے میرے خلاف دائر تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں عمران خان بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ 35 پنکچروں والی باتیں سیاسی نٹ کھٹ کا حصہ تھیں چیف آف دی آرمی سٹاف (جنرل قمر جاوید باجوہ) میری انتھک محنت اور حب الوطنی کی تعریف کر چکے ہیں اسی طرح نیب نے بھی مجھے تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے سب دوستوں کا شکریہ!