اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 26 نومبر2008 ءکی شب ممبئی کے ہوٹل اوبراے اور تاج محل پر دہشتگردوں نے حملہ کردیا گو یہ حملے ایک ہی وقت میں ان ہوٹلوں کے علاوہ ممبئی سٹی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم‘ یہودیوں کے خفیہ مرکز نرمن ہا¶س اور جنرل ہسپتال پر بھی ہوئے لیکن بھارت سرکار نے میڈیا کوریج کے حوالے سے صرف ہوٹل تاج محل ہی کو عالمی توجہ کا مرکز بنائے رکھا کیونکہ ہوٹل میں سینکڑوں غیر ملکی سیاح موجود تھے‘ واحد زندہ بچ جانے والے دہشت گردی کے اہم کردار کی جو ”ان ایکشن“ تصاویر منظر عام پر لائی گئیں وہ سٹی اسٹیشن کے ایک وسیع پلیٹ فارم کی تھیں لیکن 58 گھنٹے تک تاج محل ہوٹل کے اندر مورچہ بند ہو کر بھارتی فوج کی پوری کمانڈو یونٹ کا مقابلے کرنے والے تمام دہشت گرد جب مارے گئے تو بھارت سرکار نے سرکاری پریس ریلیز میں کہا کہ مارے گئے بے گناہ لوگوں کی تعداد 156 تھی جبکہ اجمل قصاب دہشت گردوں کی تعداد دس تھی۔ بھارت سرکار نے یہ نہیں بتایا کہ پانچ مختلف مقامات پر حملوں کیلئے دہشت گردوں نے خود کو کس طرح تقسیم کیا‘ کیا یہ دو دو کی شکل میں پانچ اہداف پر حملہ آور ہوئے یا یہ ترتیب مختلف تھی۔ حملہ شروع ہوتے ہی بھارت سرکاری‘ میڈیا اور تمام سیاسی و غیر سیاسی تجزیہ کاروں کا یک زبان ایک ہی موقف تھا‘” حملہ آور پاکستانی ہیں۔ ان کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے اور انہیں آئی ایس آئی نے دہشت گردی کےلئے ممبئی بھیجا ہے“۔ نیو یارک میں ”نائن الیون“ کی طرز پر بھارتی میڈیا اسے بھارت کا26/11 قرار دے کر پاکستان کےخلاف اس قدر سیاپا ڈالنے میں مصروف تھا کہ پاکستانی بھی پریشانی کی حالت میں یقین کرنے لگے کہ ممکن ہے حملہ پاکستان نے کرایا ہو جبکہ ممبئی کا مقامی میڈیا حملے کے آغاز کے ساتھ ہی نیو دہلی کے موقف کو جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ قرار دینے میں لگا تھا جس کیلئے 27 نومبر2008 ءکے ممبئی کے مقامی مہاراشٹری.... زبان میں شائع ہونےوالے اخبارات کی سرخیاں اس کی گواہ ہیں۔ آئیے اب ایک اور سچ کی طرف‘18 فروری2007 ءکی شب نیو دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی سمجھوتہ ایکسپریس نیو دہلی سے نکلنے کے بعد پانی پت شہر کے مضافاتی دیوانہ ریلوے اسٹیشن پر بنارکے گزری ہی تھی کہ اچانک2 بوگیوں میں آگ بھڑک اٹھی‘ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے یہ خبر سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں میں لگی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارتی میڈیا آگ کی وجہ دھماکے بتا رہا تھا اور مورد الزام پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا تھا۔ دونوں بوگیوں میں سوار مسافروں میں سے68 موقع پر ہی جل کر خاکستر ہو گئے جبکہ بھارتی میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف رہا۔اس موقع پر بھارتی بیانیے کی بنا پر نہ صرف باقی دنیا بلکہ پاکستان میں بھی کچھ طبقات بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس زمانے میں پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردیوں اور خودکش دھماکوں کا ذمہ دار بھی پاک فوج اور آئی ایس آئی کو قرار دینے لگے18 مئی2007 ءکو حیدر آباد دکن کی مصروف مکہ مسجد میں ٹائم بم دھماکہ ہوا بہت سے مسلمان شہید اور بے شمار زخمی ہو گئے بھارتی میڈیا اور حکومت نے اسے سمجھوتہ ایکسپریس کی 2 بوگیوں کی تباہی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے الزام پاکستان‘ پاک فوج‘ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ پر لگا دیا۔ 11 اکتوبر2018 کو اجمیر شریف میںدرگاہ کے باہردھماکہ ہوا 13 دسمبر2008 ءکو تو حد ہی ہو گئی جب بھارتی دارالحکومت نیو دہلی میں ایک ہی دن میں آدھے گھنٹے کے اندر پانچ مختلف مقامات پر ٹائم بم دھماکے ہو گئے۔ قارئین نے فراموش کردیا ورنہ اس روز بھارت نے پاکستان کیخلاف پوری دنیا میں سفارتی مہم شروع کر دی تھی تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ پاکستان دہشت گردوں کو اپنے ہمسایہ ملکوںکیخلاف بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ دنیا بھر میںپاکستان مخالف بھارتی بیانیے میں دلچسپی کی وجہ نیو دہلی میں خوف کی فضا برپا کرنے والے دھماکے تھے۔ ایسی صورتحال میں انکی توجہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونیوالے خودکش دھماکوں کی طرف دلانے والا کوئی بھی نہیں تھا کیونکہ پاکستان کے اندر ٹیلی ویژن چینلوں پربیٹھے تجزیہ کاروں کی اکثریت بھارتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کی بجائے اپنی ہی فوج پر انگلیاں اٹھانے میں مصروف تھی ۔ کوئی ایک لمحے کو سوچنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ یہ غیر ملکی پاکستان دشمن قوتیں ہیں جو افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی برپا کئے ہوئے ہیں۔
29 ستمبر2008 ءکو بھارتی صوبہ مہاراشٹر کے علاقے مالیگا¶ں اور گجرات میں موداسانامی علاقے میںہونےوالے دھماکوں نے سارا منظر نامہ ہی نہیں بھارتی فسانے کے کردار بھی بدل کر رکھ دیئے ان دھماکوں کے دو روز بعد مہاراشٹر میں قائم کئے گئے انسداد دہشت گردی سکواڈ نے دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ہندو انتہا پسندوں کی جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ اور اس کی ذیلی جماعتوں میں انتہائی اہم و معتبر سمجھے جانے والے شیونارائن گوپال سنگھ‘ شیام بھور لال ساہو اور سادھوی پر گیا سنگھ ٹھاکر کو گرفتار کر لیا ۔ انسداد دہشت گردی سکواڈ کے سربراہ ہمنیت کر کرے کے اس اقدام نے بھارت میں بھونچال برپا کر دیا۔ گرفتار کئے گئے ان افراد کی نشاندہی پر میجر رامیش اپادھیہ و سمیر کلکرنی گرفتار ہوئے اور اسکے بعد کرنل پراساد شری کانت پروبت کی گرفتاری کے بعد 4 نومبر2008ءکو ہمنیت کرکرے کی پریس کانفرنس نے بھارتی فوج ‘خفیہ اداروں اور حکومت کی نیندیں اڑا دیں۔ ہیمنت کرکرے نے بتایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں سے لے کر مالیگا¶ں دھماکے تک بھارت میں دہشت گردی کے تمام واقعات میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران‘ ہندو انتہاپسندوں کے سرکردہ لیڈر اور ملٹری انٹیلی جنس کے افسران کا ایک منظم گروہ ملوث ہےجس کے بارے میں شک انسداد ہشت گردی سکواڈ کو سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی وقوعے کے چند روز بعد ٹریس ہونے والی ایک ٹیلی فون کال سے ہو گیا تھا لیکن مستحکم ثبوتوں سمیت ملوث اہم افراد کو گرفتار کرنے میں اتنی تاخیر ہوئی۔ بھارت پریشان تھا کہ اب پاکستان اس کےخلاف عالمی سطح پر جوابی سفارتی کارروائی کریگا اور پاکستان مخالف بھارتی بیانیہ نہ صرف ریت کی دیوار کی مانند گر جائے گا بلکہ الٹا بھارت کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ مگر پاکستان نے کسی بھی طرح کا ردعمل دینا تو دور کی بات ہے۔ اتنے اہم مسئلے پر ایک لفظ بھی کہنا گوارا نہیں کیا۔ 15 نومبر تک جب ہیمنت کرکرے نے کرنل پروہت سمیت تمام گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے ان سے اقرار جرم کرا لیا تو بھارتی فوج‘ حکومت اور خفیہ ادارے طے کر چکے تھے کہ اب انہیں کیا کرنا ہے۔ ہیمنت کرکرے کو بتا دیا گیا کہ کرنل پروہت سمیت تمام گرفتار ملزمان کو رہا کر دے۔ دھماکوں میں انکے ملوث ہونے کے ثبوت ضائع کردے یا پھر اپنے انجام کیلئے تیار رہے۔ ہیمنت کرکرے ضدی انسان تھا۔ 26 نومبر 2008 ءکو ممبئی حملوں کے آغاز کے پہلے دو گھنٹوں میں ہی اپنے ساتھی تین افسران سمیت پورے دہشت گردی اسکواڈ کے ہمراہ جنرل ہسپتال کی پشت پر ایک ویران اور اندھیری گلی میں اسے گولیوں سے بھون دیا گیا اور اب پاکستان میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سوال اٹھاتے ہیں کہ کس نے اجازت دی دہشت گردوں کو کہ وہ بھارت جا کر150 بے گناہوں کی جان لے لیں۔ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ پوچھتے پاکستان میں80 ہزار بے گناہوں کی جان سے کھیلنے والے کون تھے اور انہیں کس نے بھیجا۔ میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ سبرل ایمڈا کے ذریعے میاں نوازشریف کے انٹرویو کا بندوبست کرنےوالا اصلی قصوروار ہے۔ مگر پہلے یہ تو طے کیجئے کہ انٹرویو ملتان میں ہوا یا سوال و جواب کی شکل میں سب کچھ پہلے سے عملی شکل پا چکا تھا۔ ملتان میں سیرل المیڈا کی میاں صاحب سے ملاقات تو بہانہ تھا ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ ٹیپ ریکارڈ سے کاغذ پر منتقل ہونے کے بعد تین گھنٹے کے اندر انٹرویو معروف انگریزی اخبار کی ویب سائٹ پر ”اپ لوڈ“ ہو جائے اور ساتھ ہی میاں نوازشریف کی سرل المیڈا کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے فوٹو بھی لیک کی جائے تاکہ انٹرویو کےلئے دونوں کی ملاقات کے طور پر سند رہے ورنہ میاں صاحب اور سرل المیڈا کی انٹرویو کے دوران فوٹو لے کر سامنے لانے میں کیا قباحت تھی۔