شہزاد چغتائی
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے آئندہ حکومت بنانے کے اعلانات کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کا مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ سندھ اورمرکز میں سینیٹ جیسا سیٹ اَپ آئے گا جس کا پیپلز پارٹی حصہ ہوگی۔پیپلز پارٹی اس وقت غیرمتوقع انتخابی نتائج کے خوف میں مبتلا ہے۔سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے 2018ءکے انتخابات کے بعد مرکز اورپنجاب میں حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن سندھ کی حکومت کا معاملہ گول کرگئے۔ ان کے دست راست صوبائی وزیر منظوروسان نے گزشتہ ماہ اشارہ کیا تھا کہ سندھ میں جام صادق کے دور حکومت جیسی مخلوط حکومت بنے گی جس میں پیپلز پارٹی شامل ہوگی۔یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف اورمسلم لیگ(ن) اورایم کیو ایم جماعت اسلامی جمعیت علماءاسلام اور اے این پی کی جانب سے پیپلز پارٹی کو صوبائی انتخابات میں چیلنجوں کا سامنا نہیں ہے بلکہ ایم کیو ایم تو پیپلز پارٹی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور نے ایم کیو ایم کو پیشکش کی تھی کہ وہ نگراں سیٹ اَپ کے عوض ایم کیو ایم کو عام انتخابات میں کچھ نشستیں دینے کو تیار ہےں۔ سندھ کے 8 اضلاع میں پیپلز پارٹی کو سیاسی مخالفت کا سامنا ہے جس کے باعث پیپلز پارٹی کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ بدین میں قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا نے بہت بڑا جلسہ کر کے پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے طوطے اڑا دئیے‘ فہمیدہ مرزا اورحسنین مرزا نے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ٹھکرا دیا اور ڈٹ گئیں۔ پیپلز پارٹی اس وقت بدین کے منتخب نمائندوں سے نالاں ہے جن کو بدین کے عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہے اور ان کی حیثیت ’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘ جیسی ہے۔ پورے سندھ میں پیپلز پارٹی کے بہت سے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی پوزیشن بدین کے عوامی نمائندوں جیسی ہے جن پرپیپلز پارٹی بہت سرمایہ کاری کی ہے اور ان کو کروڑوں کی نوکریاں اعلیٰ عہدے اربوں روپے کے ٹھیکے دئیے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ فیصلہ کن ووٹ لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ذوالفقار مرزا اس وقت پیر پگارا کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ ہیں لیکن ان کے تحریک انصاف کے ساتھ رابطے ہیں۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ ذوالفقار مرزا اورفہمیدہ مرزا ان کی جماعت میں آ جائیں۔ سندھ میںگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے جلسے بھی بڑے ہوئے ہیں۔ پیر کے روز جماعة الدعوة کے سربراہ حافظ سعید نے کنگری ہاﺅس جا کر پیر پگارا ملاقات کی اورتبادلہ خیال کیا‘ اس ملاقات کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ کراچی پیپلز پارٹی کی گود میں آگرے غالب امکان یہ ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کو نہیں ملے گا۔ یہ مینڈیٹ کس کے پاس جائے گا یہ فیصلہ ہونا باقی ہے اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے ہرصورت میں کراچی کا مینڈیٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی تیارکرلی تھی اور بلاول بھٹو نے طاقت کے مظاہرے شروع کردئیے تھے۔لیکن اب پیپلز پارٹی ٹھنڈی پڑ گئی ہے امیدیں تو باقی ہیں کوششیں بھی ہورہی ہے لیکن توقعات کم ہوگئی ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پیپلز پارٹی کا پلان یہ ہے ڈرائیونگ سیٹ ملے نہ وہ انجن میں سوار ہوناچاہتی ہے۔پیپلز پارٹی نے مرکز میں فوکس کرنے کے بجائے سندھ کو خوابوں کامرکز بنا لیا اور سندھ پر چوتھی بارحکمرانی کےلئے نئی سیاسی حکمت عملی اور رسائی کی منظوری دیدی۔ اس وقت سندھ پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ 2013ءکی طرح سیاسی حلقوں کو یقین ہے کہ اس بار بھی دھاندلی کا بازار گرم کر کے پیپلز پارٹی میدان مارے گی اور مرکز میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر فصل کاٹے گی۔ نوازشریف کی جانب سے مزاحمت کے باعث پیپلز پارٹی کی لاٹری نکل آئی۔ اپوزیشن جن حلقوں میں پیپلز پارٹی کےلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے‘ پیپلز پارٹی وہاں ہنگامی سیاسی تدابیر اختیار کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ناراض رہنماﺅں کے پاﺅں پکڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف جب بھانوٹ (سندھ) میں خطاب کرنے آرہے تھے تو کراچی میں یہ افواہیں اڑ رہی تھیں کہ سروری جماعت کے سربراہ مخدوم جمیل الزماں مسلم لیگ میں شامل ہو رہے ہیں لیکن جو سیاسی حلقے مخدوم فیملی کو جانتے ہیں ان کو یقین تھا کہ جمیل الزماں اس سیاسی گناہ سے دور رہیں گے۔ اس سے قبل یہ اطلاعات تھیں کہ مخدوم جمیل الزماں مسلسل نظر انداز کرنے اور صوفی یونیورسٹی کو شفٹ کرنے پر برہم تھے لیکن شہبازشریف کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اڑائی جانے والی افواہوں کے طفیل بلاول بھٹو نے مخدوم جمیل الزماں کو بعض یقین دہانیاں کرا دیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کی اہم شخصیات جاگیرداروں اور وڈیروں کے ساتھ گاجر اور اسٹیک کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے‘ وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی بلیک میلنگ میں آنے کےلئے تیار نہیں جو جاگیردار پیپلز پارٹی کو آنکھیں دکھاتے ہیں ان کو پیپلز پارٹی جھٹکا ضرور دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو آنکھیں دکھانے والوں میں گھوٹکی کے مہر برادران شامل ہیں۔ علی محمد مہر گزشتہ دنوں کنگری ہاﺅس میں پیر پگارا کے پاس پہنچ گئے لیکن آصف زرداری ان سے خوفزدہ نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کویہ چیلنج پہلے ہی دے چکے ہیں کہ وہ اس بار مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں بننے دیں گے۔ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنے تو بنے پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں بنے گی۔پیپلز پارٹی اس وقت کسی بھی ممکنہ سیاسی طوفان کو روکنے کےلئے سرگرم ہے اور اپنے اقتدار کو ہرصورت میں محفوظ کرنے کےلئے کوشاں ہے‘ وہ سندھ میں مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی یلغار کو روکنا چاہتی ہے۔ جیالے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے زیادہ شہباز شریف کے بڑھتے ہوئے قدموں سے پریشان ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ کا زبردست ووٹ بنک ہے‘ وہ دوبار سندھ میں حکومت بناچکی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت فیصلہ سازوں کادل موہ لینے کےلئے بھی سرگرم ہے وہ فیصلہ سازوں کے احکامات پردل و جان سے عملدرآمد کےلئے تیار ہے تاکہ وہ کسی متبادل آپشن کی جانب دھیان نہ دیں اور پیپلز پارٹی پر انحصار کریں۔ پیپلز پارٹی ان تمام رکاوٹوں کومسمارکرنے کےلئے کوشاں ہے اس نے ایم کیوا یم کو بھی جیب میں ڈال لیا ہے۔ پیپلز پارٹی پر حالیہ مہربانیوں کی برسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری سیاست کے داﺅ پیچ سابق وزیراعظم کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں اور مخالف ہواﺅں کارخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دورمیں پیپلز پارٹی کو دوبار اپوزیشن میں بیٹھناپڑا تھا لیکن اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان کے باوجود آصف زرداری تیسری بار سندھ کی اینٹ سے اینٹ بجانے جارہے ہیں اور شاید ان کو اجازت مل گئی ہے۔ شہبازشریف کے میدان میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ممتاز بھٹو کہتے ہیں نوازشریف پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کے دسترخوان پر بیٹھ گئے تھے اور انہں نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا تھا‘ اب شہبازشریف کے عزائم دیکھ کر پیپلز پارٹی پر بوکھلاہٹ طاری ہے‘ عمران خان نے بھی شہباز شریف کو خطرناک آدمی قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سندھ اورکراچی میں میدان مار سکتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی کمان لاہور منتقل ہونے اور رانا مشہود کے پاس جانے کے بعد مسلم لیگ سندھ کی صفوں میں بے چینی پائی جاتی ہے رانا مشہود مسلم لیگ سندھ اورکراچی کے چند رہنماﺅں کو توجانتے ہیں لیکن کاورکرز سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما جب کراچی آتے ہیں تو ان کو بار بار اپنا تعارف کرانا پڑتا ہے اور رانا صاحب ان کو بھول جاتے ہیں۔اس لحاظ سے کراچی اورسندھ میں مسلم لیگ کا کوئی پرسان نہیں کراچی کی تنظیم نامکمل ہے منور رضا کی جگہ کسی کو کراچی کا صدر مقرر نہیں کیا گیا‘ صوبائی اورڈویژن کی سطح پرکوئی سیکرٹری اطلاعات نہیں ویسے تو کراچی میں ہر لیڈر کا اپنا انفارمیشن آفس ہے لیکن کراچی میںصوبائی یا ڈویژن کی سطح پر کوئی میڈیا مینجمنٹ سینٹر نہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور رانا مشہود جب کراچی آتے ہیں تو ان کی آمدورفت اور مصروفیات کے بارے میں کوئی اطلاع فراہم نہیں کرتا نہ ہی ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کیاجاتا ہے نہال ہاشمی قصہ پارینہ ہوگئے پہلے کراچی کو مشاہد اللہ خان دیکھ رہے تھے وہ اسلام آباد سدھار گئے۔ایک دو ماہ قبل مسلم لیگ (ن) نے کراچی کی ترجیحات میں شامل کیا تھااس زمانے میں نوازشریف کراچی آئے اور یہاں تین روز قیام کیا تھا اس کے بعد مشاہد اللہ خان نے کراچی کے معاملات دیکھنا شروع کردئیے تھے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کراچی میں پھرہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سندھ سے دلچسپی کا حال یہ ہے کہ سندھ کی تنظیم نامکمل ہے۔
٭٭٭٭٭٭