ہر آنکھ نم ہے۔ آج دل بے حد مغموم ہے۔کراچی میں قومی ائیر لائن کے ہولناک سانحہ نے پرانے زخم بھی ہرے کر دئیے۔ستائس رمضان المبارک کو حادثہ پیش آیا۔دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ان غمگین گھڑیوں میں بندہ رب کے اور قریب ہوجاتا ہے۔ستائس رمضان المبار ک کی مقدس ساعتوں میں ایک حمد سننے کا شرف حاصل ہوا۔ معروف ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کی آمد ہے۔ خط لکھ رہا ہوں آج میں اپنے خدا کے نام ،اک بے وفا کی عرض ہے اک با وفا کے نام ، پہلی تو بات یہ ہے کہ اچھا نہیں ہوں میں ، خالص میں باوقار نہیں سچا نہیں ہوں میں، آفت جو آپڑی ہے سر پر عذاب ہے ، میری وجہ سے آج میرا خانہ خراب ہے ،مشکل میں میری جان ہے مشکل کشا کے نام ،سب لغزشیں خطائیں میری کوئی بھی بھول ہو ،میں آگیا ہوں در پہ تیرے معافی قبول ہو ، رحمت کا تیرے رحم کا چرچا ہے نام ہے ،باقی میرے نبی کی مجھے نسبت سے کام ہے ، اک عرض اور بھی ہے میری مصطفی کے نام ، خط لکھ رہا ہوں آج میں اپنے خدا کے نام۔ اک بے وفا کی عرض ہے اک با وفا کے نام۔ بے شک اللہ سبحان تعالٰی کے سوا کوئی آسرا نہیں اور کتنے طیارے موت کے منہ میں جانے باقی رہ گئے ہیں ؟طیارے میں تکنیکی خرابی ایسی منحوس خبریں کب تک سننے کو ملیں گی؟ خراب ناقص پرانے بوڑھے بیمار طیارے معصوم لوگوں کی جانیں آخر کب تک لیتے رہیں گے ؟ سرکاری ائیر لائن میں سفر کرتے خوف آنے لگا ہے۔ نجی کمپنیاں بھی سرکاری طیاروں کی بری شہرت کے سبب وجود میں آنے لگیں۔ سرکاری ائیر لائن دنیا میں کبھی نمبر ون ہوا کرتی تھی اور اب یہ عالم ہے کہ قومی ائیر لائن پر سفر غیر محفوظ سمجھا جانے لگا ہے۔پاکستان کی فضائی حدود میں اب تک 82 فضائی حادثات ہوچکے ہیں جن میں غیر لڑاکا فوجی اور مسافر دونوں طیارے شامل ہیں۔ پاکستان ایئر لائن کے طیارے کو پہلا حادثہ 26 نومبر 1948 کو پیش آیا تھا جس میں 16 مسافروں اور عملے کے 5 ارکان سمیت 21 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ طیارے کو حادثہ جنوبی پنجاب کے شہر وہاڑی کے قریب تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا تھا۔ کراچی میں ستائس رمضان المبارک جمعے کی دوپہر ایئر پورٹ کے قریب گنجان آبادی میں گر کر تباہ ہونے والے ہوائی جہاز کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی فضائی حادثات ہوچکے ہیں، جن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اٹھائیس جولائی دوہزار دس کو نجی ائیر لائن ائیر بلیو کا جہاز اسلام آباد کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہوگیا تھا، کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت ایک سو باون مسافر جاں بحق ہوئے۔بیس اپریل دوہزار بارہ کو بھوجا ایئرلائین کا بوئنگ مسافر طیارہ کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اس حادثے میں 121مسافر اور عملے کے چھ ارکان جاں بحق ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ دسمبر دو ہزار سولہ میں پی آئی اے کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا جس میں 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں معروف نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے۔حالیہ جمعہ کو طیارہ بھی خوفناک سانحہ ہے۔ بدقسمت طیارے میں 90 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے ۔ طیارہ لینڈ کرنے میں ناکام ہوگیا تھا اور ایک اور کوشش کے لیے چکر لگارہا تھا۔ پائلٹ کو گو ارائونڈ کیوں بولا گیا۔ گو اراؤنڈ دراصل ایوی ایشن کی ایک اصطلاح ہے جس کا عام مفہوم یہی ہے کہ پائلٹ جہاز کو اتارتے وقت کسی بھی تکنیکی مسئلے کی بنا پر جہاز کو اتارنے سے گریز کرتا ہے۔
ایوی ایشن ماہرین کے مطابق 'گو اراؤنڈ' کا مطلب ہوتا ہے کہ پائلٹ لینڈنگ کے وقت ایئرپورٹ کی حدود میں ہی جہاز کو چکر لگوا سکتا ہے جب تک کہ وہ اس بات کی تصدیق نہ کرلے کہ جہاز اتارنے میں کوئی دقت نہیں۔ایک پائلٹ کو سنا جاسکتا ہے سر، ہم براہ راست آگے بڑھ رہے ہیں، ہمارا انجن تباہ ہوگیا ہے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ پائلٹ کیپٹن سجاد گل کی کنٹرول ٹاور سے گفتگو کے دوران انکی آواز پرسکون اور مکمل قابو میں تھی۔کنٹرول ٹاور سے آخری گفتگو میں کہیں گھبراہٹ نہ تھی۔ یہ بڑی جواں مردی پر مبنی موت ہے، جسے انہوں نے باوقار انداز میں گلے لگایا۔ پی آئی اے ذرائع کے مطابق قومی ایئرلائن کے طیارے میں 180 مسافروں کی گنجائش تھی تاہم کرونا وائرس کے حفاظتی اقدامات کے طور پر اس میں عملے سمیت 107 افراد سوار تھے۔طیارے کی ایک ماہ قبل مرمت کرائی گئی تھی اور کراچی روانگی سے قبل اسے تین بار کلیئرنس ملنے کے بعد روانہ کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کا یہ طیارہ گزشتہ روز مسقط سے مسافروں کو لے کر پاکستان پہنچا تھا۔ پی آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ایئرلائن کے فلیٹ میں شامل ہونے سے پہلے یہ طیارہ چائنا ایسٹرن ایئرلائن کے زیر استعمال رہا ہے اور پی آئی اے کے فلیٹ میں اکتوبر 2014ء میں شامل کیا گیا تھا۔تحقیق زبانی جمع خرچ ہوتی ہے۔ ہر سانحہ کے بعد تحقیق کا باب عارضی طور پر کھل جاتا ہے نہ کچھ ہوا اور نہ کچھ ہونے کی امید ہے۔ بس ایک جانے والے ہی لوٹ کر نہیں آتے۔