کرونا سے ڈرنا نہیں۔ کرونا میں عید منانا ہے

May 24, 2020

یہ سلوگن بہت عام ہوا ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں۔ کرونا سے لڑنا ہے۔ کرونا سے لڑنے کے جوطریقے دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے بتائے ہیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں لیکن اس میں سوشل ڈسٹنس یعنی انسانوں میں فاصلہ سب سے اہم ہے۔ اور اسی لئے دنیا کے ہر ملک میں لاک ڈائون کیا گیا سوائے سوئیڈن کے۔ لاک ڈائون کی معاشی تباہی اپنی جگہ لیکن ملک اور دنیا انسانوں کا نام ہے پیسے جمع کرنے کا نہیں۔ جب کوئی صنعتیں نہیں تھیں جب کوئی کارخانے یا مالز نہیں تھے تو کیا دنیا کی معیشتیں نہیں چلتی تھیں؟۔ لیکن اس زمانے میں عوام کی جان کی حفاظت ہی سب سے مقدم سمجھی جاتی تھی۔ کسی بھی مذہب میں بھی انسانی جان کا تقدس سب سے افضل ہے۔ ہم نے ابھی سوئیڈن کا ذکر کیا تھا وہاں لاک ڈائون نہیں کیا گیا۔ اصول ہرڈ کمیونٹی کا اپنایا گیا یعنی کوئی بیمار ہو یا مرے یہ اسکی قسمت ہے۔ ہرڈ ویسے جانوروں کے ریوڑ کو کہتے ہیں۔ جنوری سے ابتک کرونا کا دور چل رہاہے۔ اس میں بہت سی قوموں کے بہت ہی اہم تہوار آئے۔ یہ سب بھی ہماری طرح اللہ کی مخلوق ہیں اور انہیں بھی اپنے تہوار یا مذہبی دن اتنے ہی عزیز ہیں جتنے ہمیں لیکن یہ ریکارڈ پر ہے کہ کسی ملک یا قوم یا مذہب کے ماننے والوں نے کوئی ایسا تہوار کرونا دور میں نہیں منایا جس میں کسی قسم کی بھیڑ اجتماع یا لوگوں کے قریب آنے کا احتمال ہو۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ہمارے ملک میں بازار کھول دیئے گئے ہیں اور لوگ عید منانے کے لئے ایسے بیقرار ہیں کہ لگتا ہے ٖغربت نام کی کوئی چیز صرف افسانہ ہے یہاں۔ ہر شخص کچھ بھی کر کے عید کی خریداری میں مصروف ہے۔ بازاروں میں سانس لینے کی جگہ نہیں ایس اوپیز کو کون یاد رکھے گا۔ حکومت نے ایس اوپیز بنا دیئے۔ تاجروں نے کہہ دیاکہ ان کو فالو کرنا ہماری ذمہ داری نہیں۔ حکومت فالو کرانے کو تیار نہیں اورنہ ہی شایداس کے پاس وسائل ہیں اس لئے آرام سے کہہ دیا لوگ اپنا خیال خود رکھیں۔ ادھر لوگ عید منانے کے لئے سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار۔ پھر انہیں ہر طرح سے اس پر یقین دلادیا گیا ہے کہ کرونا پاکستانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ انسانوں کی الگ ہی نسل ہے اس معاملے میں حکومت ساری غربت عید کے دنوں میں ہی مٹانے پر مصر ہے اسے غریبوں کا درد بھی رمضان کے آخری عشرے میں جاگا،رمضان جو صبر قناعت اور برداشت کا مہینہ ہے لیکن بازاروں میں جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ جس چیز کا اتنا ذکر ہے اس پر عمل کتنا۔ لوگ ہر چیز کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ کرونا کے پھیلائوکس تیزی سے ملک کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔ ڈاکٹر وارننگ پر وارننگ دے رہے ہیں کہ چار دن کی یہ خوشیاں کوئی بڑی قیمت نہ وصول کرلے لیکن حکومت،تاجر اور سب سے بڑھ کر لوگ مانے کو تیار نہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ جس ملک کا حکمران دنیا بھر کو روز اپنی قوم کی غربت کی دہائی دیتا ہو۔ قرضے معاف کرنے کی التجائیں کرتا ہو اس کے بازاروں میں جائو تو لگتا ہے سارے ملک کو کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے لوگوں کے ہاتھوں۔ اسی عید سے پہلے لٹانا فرض ہے۔ پھر کیا ہم دنیا بھر کا حصہ نہیں؟۔ قرضے مانگنے۔ ہمدردیاں حاصل کرنے اور مظلومیت کے مقدمے لڑنے کے لئے تو ہر ایک سے اپیل کرتے ہیںلیکن پچاس لاکھ افراد متاثر اور تین لاکھ سے زیادہ کی ہلاکت کے باوجود جس میں ہمارے اپنے ملک کے پچاس ہزار متاثر لوگ شامل ہیں کے باوجود ہمیں خوشیاں چاہئیں،نئے کپڑے اور عید کی مٹھائی اور شیر اور جہاں تک ممکن ہو ملنا ملانا بھی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم عادتا قانون توڑنے میں خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں اور اس کے لئے سیکڑوں جواز بھی دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کہے نہ کہے کرونا تو ایک اٹل حقیقت ہے خود ہم اسے عذاب کہتے ہیں جو قدرت کی طرف سے انسانی گناہوں کے سزا ہے۔ گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ اس سے نجات ملے لیکن جو عملی کام ہے یعنی احتیاط اور پر ہیز کرنا اس پر ذرا بھی عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ساری مسلم دنیا میں عید اداس ہوگی۔ مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک۔ ہماری مقدس ترین مساجد اور شہروں میں عید کی نمازیں گھر پر پڑھی جائیں گی۔ لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ویسے تو ہم مسلم امہ کا حصہ ہیں۔ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن عید منانے کے معاملے میں ہم سب سے الگ ہیں۔ دنیا بھر میں موجود نوے لاکھ سے زیادہ ہمارے بیٹے بیٹیاں۔ بھائی بہن ماں باپ لاک ڈائون میں عید منائیں گے،نئے کپڑے نہیں پہنیں گے لیکن ہم ویسے تو ان کا ہر وقت ذکر کریں گے لیکن یہاں عید کی شاپنگ خوشیاں کھل کر منائیں گے۔ ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ وہ کس عذاب سے گزر رہے ہیں اس وقت۔ دوسری قومیں تو ویسے بھی ہماری دشمن ہیں لیکن کیا ساری مسلم دنیا کے لوگ بھی ہم سے علیحدہ ہیں۔ آخر کس منہ سے ہم انہیں اپنی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کو کہیں گے۔ کیا ایک لمحے بھی ہم غور کرنے کو تیار ہیں؟

مزیدخبریں