رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اختتام پذیر ہونے کو ہے اور عید کی آمد ایسے وقت پہ ہے جب ملک کی فضا جو کہ پہلے ہی کورونا نے اداس کر رکھی تھی پی آئی اے کے طیارہ حادثے نے اس عید کو مزید سوگو ار کر دیا ہے ۔ کو رونا وائرس جس کی لپیٹ میں اب تک دنیا بھر کے پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ آ چکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچنے والی ہے اور پاکستان میں مریض پچاس ہزار سے بھی زائدہو گئے ہیں، جب کہ مرنے والوں کی تعداد بھی ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ، ایسے میں پی آئی اے جہاز کے دلخراش حادثے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے ۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب جہاز اپنی لینڈنگ سے صرف ایک منٹ کے فاصلے پہ تھا ، منزل کے اتنے قریب پہنچ کے بھی منزل تک نہ پہنچ سکا۔ زندگی بے اعتبار تو ہے ہی لیکن بعض اوقات اس حد تک بھی غیر یقین ہو جاتی ہے کہ انسان کی مسکراہٹ لبوں تک پہنچنے پہنچتے سسکی بن جاتی ہے۔
عید کا دن آنے کو ہے لیکن خوشی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف سوگواریت کا عالم ہے۔ اداسی اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے ہے ۔ کراچی لہولہان پڑا ہے لوگ عید کی خریداری کرنے کی بجائے اپنے پیاروں کے لئے کفن خرید رہے ہیں۔ جمعے کے روز جب ساری قوم جمعتہ الودا ع منا رہی تھی ایسے میں معمول کے مطابق عید منانے کے لئے جانے والے ۹۹ مسافروں اور جہاز کے عملے کو لئے لاہور سے اڑا ن بھرنے والا پی آئی اے کا طیارہ کراچی کی جانب محو پرواز تھا اور کون جانتا تھا کہ کراچی پہنچ کے بھی یہ لوگ کبھی اپنے پیاروں تک نہ پہنچ سکیں گے ۔اس حادثے میں دو لوگوں کے معجزانہ طور پر بچ جانے کے علاوہ باقی تمام ۹۷ لوگ شہید ہو گئے ۔ طیارہ ائیرپورٹ کے پاس واقع ماڈل کالونی کی گنجان آبادی والے علاقے میں جا کے گرا جس کے باعث بہت سے مکان تباہ ہوگئے اور جائے حادثہ کو خوفناک آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ حادثے کی وجہ طیارے میں فنی خرابی بتائی جا رہی ہے ۔ پائلٹ کی کنٹرول روم کے ساتھ آخری گفتگو میں کہا گیا کہ دونوں انجن فیل ہو گئے ۔ وجہ جو بھی ہو لیکن اتنا بڑا جانی نقصان کیوں ہوا یہ جاننے کا عوام کو حق ہے ، آخر ہم کب تک اتنے بڑے بڑے حادثات کو اللہ کی رضا کہ کے ٹالتے رہیں گے ۔ اگر آج سے پہلے ہونے والے حادثات کی باقاعدہ تحقیقات کر کے ذمہ داران کو سزائیں دی گئی ہوتیں تو شاید ہم اس خوفناک حادثے سے بچ جاتے۔
دوسری طرف کورونا کی وبا جس کو شاید ہی دنیا بھر میں کسی ملک کے لوگوں نے اتنا غیر سنجیدہ لیا ہو جتنا ہمارے ہاں لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اب اس کا پھیلائو اتنی شدت اختیار کر رہا ہے کہ ڈر ہے کہ کہیں حالات ہماری دسترس سے ہی باہر نہ ہو جائیں ۔ بازار کیا کھلے کہ جتھے کہ جتھے یوں دکانوں پہ چڑھائی کرتے ہوئے نظر آئے جیسے خدا نخواستہ اس کے بعد انہیں زندگی میں کبھی نیا جوڑا یا نیا جوتا پہننے کو نہیں ملے گا یا جیسے اس کے بعد کوئی اور عید نہیں آئے گی اور یہی لوگوں کی لاپرواہی اب جس بحران کی طرف اشارہ کر رہی ہے وہ جلد نئے المیوں کو جنم دینے والا ہے ۔ ایک طرف وہ طبقہ بھی ہے جو کہ لاک ڈائون کی وجہ سے اس قدر شدید متاثر ہوا ہے کہ غربت، مہنگائی نے ان لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی مشکل کر دی ہے ۔ حالات جب اتنے سنجیدہ ہوں تو ایسے میں کوئی عید کی خوشی منا نا بھی چاہے تو خوشی اس کو کیسے راس آئے۔
عید جو کہ اللہ کا انعام بھی ہے اور خوشیوں کا پیغام بھی ، ان لوگوں کے لئے جن کا وقت اس نیک مہینہ کی مبارک ساعتوں کو سمیٹنے میں گزرا، جن کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور جن کی دعاوٗں کو شرف قبولیت بخشا گیا۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور خود اپنا احتساب کرے کہ اس نے اس مہینے میں کیا کھویا اور کیا پایا ، اس سے بڑی نادانی اور افسوس ناک اور کیا بات ہو گی کہ آدمی دن بھر بھوکا پیاسا بھی رہے، دنیا کی ہر لذت سے محروم بھی رہے اور جب حساب ہو تو اس کو پتا چلے کہ اس کے حصے میں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں آیا ، خدا کی پناہ مانگیے اس سے کہ کہیں آپ کا روزہ بھی بھوک پیاس کی شدت بن کے رہ گیا ہو۔ اور خدا کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ کتنے ہی (بد قسمت) روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حا صل نہیں ہوتا۔دوسری طرف خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی ہر ساعت عبادت خداوندی میں گزری۔ جو کہ اس بابرکت مہینے سے نہ صرف فیض یاب ہوئے بلکہ اللہ کے ہاں ان کی عبادتیں اور استغفار قبول بھی ہوئی۔ اصل عید کے مستحق بھی یہی لوگ ہیں۔
اس وقت ملک کوجن غیر یقینی حالات کا سامنا ہے وہ ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم عید سادگی سے اپنے گھروں میں ہی رہ کے منائیں ، غیر ضروری گھروں سے باہر نہ نکلیں ۔ حقیقی معنی میں عید کی خوشیاں حاصل کرنا تب ہی ممکن ہے کہ آپ اپنے ساتھ اپنے معاشرے کے اس محروم طبقے کے لوگوں کو خوشیوں میں شریک کریں جن کے معاشی حالات انہیں کوئی خوشی، کوئی تہوار منانے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ حقیقی خوشی دوسروں کو خوشی دینے سے ہی ملتی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص یہ سوچ لے کہ سادگی کو اپناتے ہوئے اپنے ساتھ ایک بھائی،بہن کو عید کی خوشی میں ضرور شامل کرنا ہے تو سوگواریت کی اس فضا میں لا کھوں، کروڑوں گھروں میں خوشی کے دیپ جل سکتے ہیں۔ زندگی ان کے ساتھ بھی مسکرا سکتی ہے، اور سچی خوشیوں کے رنگ ہر چہرے سے چھلک سکتے ہیں۔ رمضان کی ان آخری ساعتوں میں اللہ تعالی سے دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ یا اللہ پاکستان کے لوگوں پہ اپنا رحم کر، اپنا کرم کر، طیارہ حادثے میں شہید ہونے والوں کی مغفرت فرما اور ان کے لواحقین کو صبر دے ، پاکستان کو کورونا کی وبا مزید پھیلنے سے بچا لے ، پاکستان کو دشمنوں کی بری نظروں، سازشوں اور اپنوں کی ہوس سے بچا لے، اس ملک کو اور یہاں کے لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھ، ا ے اللہ تو نے اس ملک کو دنیا جہاں کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے وہ نعمتیں یہاں کے لوگوں کا مقدر بنا دے، ہمیں کورونا سے نجات دے دے ۔ یہاں زندگی موت سے سستی نہ ہو، کوئی گھر رزق سے خالی نہ ہو، ہر گھرمیں خوشیاں ہوں، ہر گھر آباد رہے، اور حقیقی خوشیوں سے لبریزہزاروں عیدیں یہاں کے لوگوں کا مقدر بنیں۔ آمین!
سوگوار عید۔۔۔!!
May 24, 2020