لاہور(رفیعہ ناہید اکرام) کراچی میں گر کر تباہ ہونے والے بدقسمت طیارے کے پائلٹ اور ائرہوسٹس کی لاہور میں واقع رہائشی علاقوں کی فضا حادثے کے دوسرے روز بھی انتہائی سوگوار رہی اوردن بھرشدید گرمی اور روزے کے باوجود کیپٹن سجاد گل اور ائر ہوسٹس انعم خان کی رہائشگاہوں پر تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ پڑوسیوں کے علاوہ رشتہ دار عزیز واقارب اور شہریوں کی بڑی تعداد دوردراز کے علاقوں سے دیوانہ وار انکے گھروں واقع ڈیفنس اور مصطفیٰ آباد کی طرف لپکتی اور شہداء کے اہلخانہ سے تعزیت کرتی رہی۔ کیپٹن سجاد گل کے والد گل محمد بھٹی نے نوائے وقت سے گفتگو میں بتایا کہ میرا بیٹا انتہائی تجربہ کار پائلٹ تھا ، نماز اور روزے کا پابند اور فرمانبردار بیٹا تھا، میں منع کرتا رہ جاتا مگر وہ میری خدمت گزاری کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا تھا، وہ کئی مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کر چکا تھا۔ بھائی ہارون عزیز نے کہاکہ میرے بھائی بہت اچھے انسان تھے۔ حادثے کی اطلاع پی آئی اے سے ملی، مرحوم نے تین بچے زویاسجاد، عثمان سجاد اور عمر سجاد سوگوار چھوڑے ہیںاور سبھی زیر تعلیم ہیں۔ اہلیہ زیب النساء نے کہا کہ میرا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا، سجاد گل اچھے باپ اچھے بیٹے اور اچھے شوہر تھے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ کیپٹن سجاد گل کے رشتہ داروں نے بتایاکہ وہ بہت وضعدار انسان اور بہترین پائلٹ تھے، وہ اپنے 24 سالہ فلائنگ کیریر میں سترہ ہزار گھنٹے سے زائد جہا ز اڑا چکے تھے جس میں سے پی آئی اے کے طیارے اے 320 ائربس کو 4700 گھنٹے اڑایا تھا، وہ آخری لمحے تک پرسکون اور پراعتماد رہے۔ طیارہ حادثے میں جاں کی بازی ہارنے والی ائر ہوسٹس انعم خان نے 8 برس قبل اپنے کیرئر کاآغاز کیا تھا اور 6 افراد پر مشتمل کنبے کی واحد کفیل تھی۔ طیارہ حادثہ اسکے پسماندگان پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔ نوائے وقت سے گفتگو میں شدت غم سے نڈھال والدہ نجمہ خان اور والد مسعود خان نے بتایاکہ ہماری بیٹی نے پورے گھر کو سنبھالا ہوا تھا، ایک بہن کی شادی کی تھی، مقامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم بھائی کے تمام تعلیمی اخراجات بہت محبت سے برداشت کرتی رہی چند روز قبل ہی 80 ہزار روپے سمسٹر فیس ادا کی۔ بہنوں ماہ نور اور رمشہ خان نے زار و قطار روتے ہوئے بتایاکہ ہم بہنوں نے حادثے سے ایک روز قبل ہی مل کر عید شاپنگ مکمل کی تھی اور اب چاند رات کو اس نے بہن کے گھر پر عیدی اور تحائف دینے جانا تھا۔ وہ عید پاکستان میں ہم سب کے ساتھ کرنا چاہتی تھی، بہن ماہ نور نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انعم ہماری واحد کفیل تھی ڈیوٹی کے دوران انتقال سے ہم کفیل سے محروم ہوگئے ہیں۔ پی آئی اے اس کی جگہ پر مجھے ملازمت دے تاکہ ہمارے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ چھوٹے بھائی حمزہ نے بتایا کہ وہ جب بھی واپس آتی تو ائرپورٹ سے مجھے فون کرتی اور کہتی حمزہ میں پہنچ گئی ہوں تم مجھے پک کر لو، وہ مجھے اپنے پیروں پر کھڑے کرنا چاہتی تھی مگر آدھے راستے میں چھوڑ گئی۔ میرے والد پی آئی اے کے شعبہ ٹرانسپورٹ سے ریٹائرڈ ہیں۔ اب میں باقی سمسٹروں کی فیسیں کس طرح ادا کرونگا، میرا تعلیمی سلسلہ ادھورا رہ جائے گا۔ ائر ہوسٹس انعم خان کے والد بہنوئی اور کزن اسکی شناخت کیلئے گزشتہ روز لاہور سے کراچی روانہ ہوگئے۔