عبادت ، نہ کہ کاروبار

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم پاکستانی مسلمان تین الفاظ اجروثواب اور نیکی کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں اور زندگی بھر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ سمیٹ لیں، گویا اجروثواب اور نیکی کو بھی ہم نے جنس یا مال و اسباب کا درجہ دے دیا ہے کہ جس طرح مال و زر اور مختلف اشیائے ضروریہ یہاں کی زندگی کو پر سہولت بنا دیتی ہیں۔ اجروثواب اور نیکیوں کے ذریعے سے وہاں کی حیات دوام کو بھی خوبصورت بنایا جاسکے گا اور طرفہ تماشہ یہ کہ ہم بزعم خود کی گئی نیکیوں اور کمائے گئے اجروثواب کا حساب کتاب بعینہ بنک میں جمع کرائی گئی رقوم کی طرح رکھتے ہیں، اس کام کی اتنی نیکیاں، اس فعل کا اتنا ثواب گو ہر اچھے عمل کے بعد ہم کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی رضا کیلئے ہے مگر یہ محض لپ سروس ہے اگر ہم اللہ رب العزت کے مقام و مرتبہ کے کروڑوں حصے کا بھی ادراک کر پائیں تو اس مشفق و مہربان ذات کے ساتھ اجروثواب اور نیکیوں کا کھاتہ کھولنے کی جسارت کبھی نہ کریں۔ ہماری یہ دنیا اور ہماری وہ دنیا دونوں اسی کے رحم و کرم پر، ایسے میں بزعم خود ہمارے کمائے گئے ثوابوں اور نیکیوں کی کیا حیثیت۔
آپ کو پی ٹی آئی سے لاکھ اختلاف سہی مگر اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا پڑے گا کہ برسراقتدار آتے ہی سیاستدانوں اور افسروں کے غیرضروری غیرملکی دوروںپر پابندی عائد کر دی جن پر اس بھوکی ننگی قوم کے اربوں لٹائے جا رہے تھے۔ بعض دورے تو بغیر دعوت کے بھی ہوئے۔ افادیت تو دور کی بات جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی اور میزبان حیران ہوتے کہ آخر وہ کیا کرنے آئے ہیں۔ لطف کی بات کہ وزٹ کہیں کا بھی ہو، ارض مقدس میں چند روز کے قیام کا بطور خاص اہتمام کیا جاتاتھا تاکہ نام نہاد سرکاری بزنس کے ساتھ ساتھ عمرے اور حج کے فیوض و برکات بھی سمیٹے جاسکیں۔ اس کارخیر میں عزیزوں، دوستوں کو شامل کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا جاتاتھا۔ سرکاری خرچے پر جہاز بھر بھر کے جاتے اور بے پایاں ثواب سے لدے پھندے واپس آتے۔ سب اسے شیرمادر سمجھتے اور کوئی نہیں دیکھتا تھا کہ ان کے اس روحانی سفر پر کن بے کسوں کے خون پسینے کی کمائی خرچ ہو رہی ہے۔ مفت کھاتے میں فیوض و برکات سمیٹنے کی یہ مہم پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہوگی تھی البتہ پاکستان بنانے والے قائدین نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے اجتناب کیا۔ کھل کھلا کر یہ سلسلہ ایوب خان سے شروع ہوا، اس میں سب سے نمایاں مقام جنرل ضیاء الحق کا ہے۔ ان کی مذہب پسندی اور رفیق القلبی سے تو قوم اچھی طرح واقف ہے‘ لیکن اکثر لوگوں کو علم نہیںکہ ان کی قوت ایمانی کی بیٹری بے حد کمزور تھی جسے چارج کروانے کیلئے موصوف ہر دوسرے چوتھے مہینے حیلے بہانے سعودی عرب کا چکر لگا آیا کرتے تھے اور آنکھوںمیں آنسو بھر کے احباب کو بتایا کرتے تھے کہ ہر عمرے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے میری بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔
میاں نوازشریف تو خیرشاہی خاندان کیلئے بھائیوں کی طرح تھے، انہیں حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت بہ التزام ملتی رہی۔ جنرل مشرف کا عہد آیا تو انہیں بھی حج و عمرہ کے مواقع بہ افراط ملے اور روضہ رسولؐ اور خانہ کعبہ کے دروازے بھی وا ہوتے رہے۔ وہ تو کعبۃ اللہ کی چھت پر بھی چڑھے اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے رہے۔ موصوف کے جملہ وزرائے عظام نے بھی ان کی پیروی کی اور حیلے بہانے ارض مقدس کی حاضری دیتے رہے۔ سب سے نمایاں چودھری شجاعت رہے جنہوں نے گنے چنے دنوں کے باوجود سرکاری عمرے کیلئے وقت نکال لیا تھا۔ ایک اور عارضی سے وزیراعظم جناب سومرو تو ثواب کمانے کیلئے سالم بوئنگ 772لے گئے جو چار روز تک جدہ میں آن ڈیوٹی رہا۔
اللہ اور بندے کے مابین معاملہ کی نوعیت بے حد خاص اور الگ قسم کی ہے۔ اپنے گنہگار بندوں پر قادر و مالک کا کرم بے کراں۔ نہ جانے بندے کی کون سی ادا پسند آجائے۔ ذوالفقار علی بھٹو، کہنے والے جسے مذہب سے نابلد‘ متکبر‘ اکھڑ‘ فیوڈل اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہا کرتے تھے۔ ارض مقدس میں حاضری دی تو حسب روایت در کعبہ وا ہوا‘ بھٹو صاحب اور ان کے وفد کو اندر نوافل کی ادائیگی کی سعادت نصیب ہوئی مگر مدینہ میں تو نوازشات کچھ زیادہ ہی تھیں۔ روضہ رسولؐ کا قفل ہی نہیں کھلا‘ تہہ خانہ بھی کھول دیا گیا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پاکستان کے اس ’’اکھڑ فیوڈل‘‘ وزیراعظم پر لرزہ طاری تھا۔ قدم من من کے ہو رہے تھے۔ قدم رکھتا کہیں تھا اور پڑتا کہیں تھا۔ بڑی مشکل سے تہہ خانہ میں پہنچا تو سانس دھنکنی کی طرح چل رہی تھی اور چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کا نصیب جاگا‘ تو غریب و مسکین کارکنوں کو بھی وفد میں شامل کر لیا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ایک ایسے ہی نادار زائر نے آنسوئوں کی جھڑی میں بینظیر سے کہا تھا ’’بی بی! یہ آپ ہمیں کہاں لے آئیں؟ ’’ہم راہوں کی دھول اور یہ مقام اللہ اللہ‘‘ محترمہ نے جواباً کہا تھا: ’’ایسا مت بولو‘ یہ تو تمہارا احسان ہے کہ مجھ ناچیز کو یہاں تک پہنچا دیا۔‘‘ ایک بات یاد رہے کہ حرمین شریفین میں حکمرانوں کی پذیرائی ان کا ذاتی اعزاز نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا ہے۔ جس کا نمائندہ ہونے کے ناطے خصوصی سلوک کا مستحق ٹھہرتے ہیں۔
آج کی تحریر یہیں ختم کرنے کا ارادہ تھا۔ مگر بقول بلھے شاہ ’’منہ آئی گل نہ رہندی اے۔‘‘ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ کا کوئی 22 برس پرانا قصہ بھی سن لیجئے۔ جو
ایک ایسے ہی وفد میں شامل تھے۔ ساتھی حطیم میں نوافل ادا کر رہے تھے کہ موصوف ذرا دیر سے آئے۔ نصف دائرے میں کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ آپ نے سب کو نظروں ہی نظروں میں ٹٹولا اور پھر ایک ڈپٹی چیف آف پروٹوکول کی گردن سے پکڑ کر ایک طرف کیا اور خود اس کی جگہ کھڑے ہو گئے۔ رب کعبہ کو جانے یہ کیسا لگا ہوگا۔
حج فرض ہے مگر صرف ایک بار اور وہ بھی اپنے پیسے سے۔ سرکاری خزانہ قوم کی امانت‘ جس میں سے ذات پر خرچ خیانت کے مترادف۔ سرکاری کھاتے میں حج وغیرہ سے مستفید ہوئے سبھی لوگ ماشاء اللہ پلے سے خرچ کرنے پر قادر تھے۔ اکثریت الحمدللہ بقید حیات ہے۔ جو نہیں رہے ان کے وارث اربوں میں کھیلتے ہیں۔ کرونا کے اس سمے جبکہ قوم کو ایک ایک پائی کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کے وہ تمام معززین جنہوں نے سرکاری خرچ پر جج / عمرہ کیا ہے۔ اپنے اپنے حصے کی رقوم خزانہ میں جمع کرا دیں تاکہ ملک کی خدمت ہو سکے اور ان کی عبادت بھی شرف قبولیت پائے۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن