بھارت کی جانب سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، انسانیت کے خلاف جرائم اور مذہبی تشدد پر میں نے یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی عزت مآب ٹونی پرکن کو جو مراسلہ بھجوایا ہے۔ اس کے مندرجات یہ ہیں۔
جناب ٹونی پرکن! میں آپ کو اور یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تمام معزز اراکین کو بھارتی حکومت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم، مذہبی خلاف ورزیوں اور بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششوں کی نشاندہی کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔نریندر مودی کو صحیح طور پر ’’قصاب گجرات‘‘ کا خطاب دیا گیا جوکہ دنیا کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ اسکی جانب سے بڑے پیمانے پر کئے جانیوالے مظالم کی نشاندہی پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یو ایس امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ (آئی این اے)کے تحت بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (آئی آر ایف اے) کی شدید خلاف ورزیوں پر ان کے یو ایس کے سفر پر پابندی عائد کی تھی۔
میں مزید تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات دوبارہ دہرانا چاہوں گاکہ نریندر مودی نے بھارتی مسلمانوں پر مظالم بند نہیں کئے اور وزیراعظم بننے کے بعد وحشیانہ انداز میں معصوم کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارتی مسلح افواج، دیگر حکومتی مشینری بشمول آر ایس ایس کے استعمال سے نریندر مودی نے مندرجہ ذیل تصدیق شدہ ڈریکونین اقدامات کو متعارف کرایا تاکہ کشمیر اور باقی بھارت میں مسلمان کمیونٹی کے خلاف کئے جانے والے مظالم میں اضافہ کیا تاکہ اس کے دہشت گردانہ تسلط کو مزید بڑھاوا دیا جائے۔
(1) کشمیری عوام اور ان کے رہنمائوں کی خواہش اور یو این کی قراردادوں جوکہ حق خودارادیت مہیا کرتی ہیں، کے برخلاف آرٹیکل 375اور 35اے کو واپس لیکر کشمیر کی حیثیت کو ختم کرنا۔
(2) مقبوضہ کشمیر کیلئے نئے ڈومیسائل قانون کا اجراء تاکہ غیرکشمیریوں بشمول آر ایس ایس کو کشمیر میں آبادکاری کی اجازت دی جائے اور طاقت کے ذریعے آبادی کے ڈھانچہ کو بدلا جائے۔
(3) شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کی قومیت رجسٹر یشن(این آر سی) کا نفاذ تاکہ پہلے سے ہدف کا نشانہ بنے ہوئے اقلیتی گروہوں پر غیرانسانی مظالم میں اضافہ کی راہ ہموار کی جاسکے۔ پورے بھارت میں عوام کی جانب سے پرامن احتجاج کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے وحشیانہ تشدد کے ذریعے کچلا گیا اور انسانیت کے خلاف یہ جرم ابھی بھی جاری ہے۔
(4) ایک دفعہ پھر گجرات کی طرح راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے تربیت یافتہ قاتلوں کے ذریعے دہلی میں مسلمانوں کی دانستہ نسل کشی کی گئی جبکہ ریاست کی پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت نہ کریں اور آر ایس ایس کے جتھوں کو سہولت فراہم کریں۔میں اس حقیقت کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ نریندر مودی اور اس کے متعلقین وحشیانہ انداز میں حکومتی مشینری کے استعمال سے اقلیتوں پر ہندوتوا کے نظریہ کو لاگو کر رہے ہیں اور ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہاہے جن کی بھارتی آئین میں ضمانت دی گئی ہے اور جوکہ متعلقہ یو این چارٹرز میں آتے ہیں۔
کشمیر میں مسلم اکثریت اور بھارت کے دیگر حصوں میں مسلمانوں پر آر ایس ایس کے بے پناہ مظالم نسل کشی کے ذریعے مخصوص معاشرتی گروہ کا خاتمہ ہے اور حالیہ تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر قتل عام کی بدترین مثال ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ کچھ ابھی بھی لاپتہ ہیں اور ان کو ہندو ازم کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کیاجاتا ہے اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے مسلمان گزشتہ سات ماہ سے کرفیو میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ آر ایس ایس کی جانب سے چلائی جانے والی ریاست کی نمایاں مذہبی خلاف ورزی ہے۔
2020ء کے دہلی کے فسادات میں بہت خون بہا، املاک کو تباہ کیا گیا جوکہ 23فروری کو شروع ہوئے جن میں بنیادی طور پر ہندو ہجوم نے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ دہلی کے فسادات گجرات کے فسادات کی نقل تھے، جب نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے اور امیت شاہ صوبائی وزیر داخلہ تھے، درحقیقت فسادات کا آغاز راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس)نے کیا تاکہ دہلی میں ہندو توا نظریہ کو فروغ دیا جائے اور عام آدمی پارٹی اور اس کے سربراہ اروند کیجریوال کی شہرت کو نقصان پہنچایا جائے۔ سوشل میڈیا آر ایس ایس کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے بھرا پڑا ہے اور کسی میں ہمت نہیں ہے، کہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔
2002ء میں گودھرا ٹرین حادثہ کے بعد دانستہ طور پر مسلمانوں کے قتل عام کے دوران متعدد باہمت صحافیوں نے آر ایس ایس کے نظریہ کو لیکر چلنے والی بھارتی حکومت کے بڑے پیمانے پر مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ میں یہاں معروف بھارتی تحقیقاتی صحافی رانا ایوب کی کتاب ’’گجرات فائل، چھپانے کا تجزیہ‘‘ سے اقتباس پیش کروں گا۔ موجودہ یونین وزیر داخلہ امیت شاہ کے حوالے سے ان کی تحقیقات کا حاصل مندرجہ ذیل ہے۔
اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ امیت شاہ تین مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھے جن پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگایا گیا کہ وہ کہ وہ لشکر طیبہ کے اراکین ہیں۔ تین ہفتوں بعد قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں ان کو گرفتار کیا گیا۔ 2014ء میں مقدمہ کی کارروائی کے بعد ان کو جیل بھیج دیا گیا کہ انہوں نے سہراب الدین شیخ، اس کی بیوی کوثر بائی اور عینی شاہد تلسی رام پراجاپتی کے جعلی مقابلہ کا حکم دیا تھا۔ یہ تین بے گناہ مسلمان 2005ء اور 2006ء میں قتل کئے گئے۔
اعظم خان جوکہ ایک اجرتی قاتل تھا، کو 2003ء میں پولیس افسر ڈی جی ونزارا نے گجرات کے سابقہ وزیر داخلہ ہرن پانڈیا کو قتل کرنے کا کہا، سابق وزیر داخلہ کا قتل اب بھی ایک معمہ ہے جس کی تہہ تک جانے کی نہ تو پولیس اور نہ یہ سی بی آئی نے کوشش کی جبکہ ان کا خاندان کہتا رہا کہ یہ ایک سیاسی قتل ہے۔ 2010ء میں مقدمہ کا واحد ثبوت اور گواہ اعظم خان کا بھی قتل کرکے خاتمہ کر دیا گیا۔
تحقیقات کے مطابق 2005ء میں جب شیخ اور اس کی بیوی کوثر بائی حیدرآباد سے سانگلی کی طرف بس میں سفر کر رہے تھے تو گجرات اور راجستھان کی پولیس نے ان کو روکا اور ان کو گاندھی نگر کے نزدیک قتل کر دیا۔ بیوی کوثر بائی کی قتل سے پہلے مبینہ طور پر سب انسپکٹر کی جانب سے عصمت دری کی گئی۔ گجرات کی پولیس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ شیخ کا پاکستان کے دہشت گرد گروہ لشکر طیبہ سے تعلق تھا اور اس نے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا البتہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ ان کو جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کیا گیاہے۔ دوسری طرف قتل کا واحد عینی شاہد پراجاپتی کو دسمبر 2006ء میں پولیس حراست میں قتل کر دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کر رہاتھا۔پہلی گرفتاری جو کی گئی، وہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈی جی ونزارا اور راجستھان پولیس افسر دنیش ایم این کی تھی۔ کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے فون کالز کا ریکارڈ جمع کیا، جس میں دیکھا گیا کہ امیت شاہ نے ڈی جی ونزار، دنیش، سپرنٹنڈنٹ پولیس راجکمار پانڈیا اور وپل کمار کو متعدد فون کالز کیں۔ ستمبر 2006ء تا جنوری 2007ء کے کال ریکارڈ میں دیکھا جاسکتا تھا کہ امیت شاہ ڈی جی ونزار اور پانڈیا کے ساتھ اس تھوڑے عرصہ میں مسلسل رابطہ میں رہا جب ان تمام تینوں کو قتل کیا گیا۔
ہر دفعہ کالز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جب مقدمہ میں کوئی پیش رفت ہوئی۔ گجرات کی سی آئی ڈی نے رپورٹ نے نشاندہی کی کہ کالز کی تعداد غیر فطری اور غیرمعمولی ہے اور یہ وزیر کے سرکاری پروٹوکول کے خلاف ہے۔ مقابلہ میں ملوث اہلکار 2007ء سے جیل میں رہے اور ان کو 2014ء ضمانت ملی۔ ان کی گرفتاری کے بعد تحقیقاتی افسر کا تبادلہ کر دیا گیا اور مقدمہ انسپکٹر جنرل گیتا جوہری کے سپرد کر دیا گیا جس کی بعد میں سپریم کورٹ نے شفاف تحقیقات کا انعقاد نہ کرنے پر سرزنش کی۔ (جاری)