آئی ایم ایف کا تنخواہ داروں پر بوجھ بڑھانا قبول نہ نیا ٹیکس لگے گا:شوکت ترین

May 24, 2021

اسلام آباد( نا مہ نگار)وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ امید ہے جون تک فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے، جون کے اوائل میں ہی وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔  سبسڈیز  میں کمی لا رہے ہیں، گردشی قرضے میں کمی لانے کیلئے کوشش کر رہے  ہیں، ریونیو بڑھانے کیلئے پروگرامز لے کر آ رہے ہیں، معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات کررہے ہیں، جب تک ایف بی آر کی محصولات نہیں بڑھیں گی  تب تک مشکلات رہیں گی، تنخواہ داروں پرٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف تجویزقبول نہیں کی،  مہنگائی  کم کرنا ترجیح ہے۔ ہم نے مستحکم اور مستقل شرح نمو حاصل کرنی ہے، زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو قرضے دینا ہوں گے، ہم ہر آدمی کو گھر دینا چاہتے ہیں، بجلی کے ٹیرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جارہا، حکومت جامع اور پائیدار اقتصادی شرح نمو کے حصول کیلئے برآمدات اور ٹیکس وصولیاں بڑھانے سمیت شارٹ اور لانگ ٹرم پلان تیار کر لیا۔ رواں مالی سال کے دوران معاشی اشاریئے 3.94فیصد کی اقتصادی ترقی ظاہر کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے ان اعداد و شمار کو متنازعہ بنانے کیلئے دیدہ دانستہ کوششیں کی گئیں، جب حکومت اقتدار میں آئی تو ملک کا مالیاتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ سخت شرائط کے باوجود مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، اتوار کو میڈیا بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ 2008کے مقابلہ میں آئی ایم کی شرائط بھی سخت تھیں لیکن ملک میں معاشی استحکام ضروری تھا اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے چند ٹارگٹڈ اور اہم شعبوں میں کام کیا ہے جن میں زراعت، صنعت اور ہاؤسنگ وغیرہ شامل ہیں۔  ہم قومی معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ اووسیز پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے خصوصی محبت کرتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے کی جانے والی ترسیلات زر میں اضافہ کے سبب معیشت کو سہارا ملا ہے تاہم جب تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے محصولات نہیں بڑھیں گے تب تک مشکلات رہیں گی۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں بھی فوڈ انفلیشن بڑھا لیکن ہم ناجائز منافع خوری کے خلاف اقدامات اور قومی زرعی پیداوار میں اضافہ سے قیمتوں میں کمی لائیں گے۔ زرعی شعبہ پر توجہ سے قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئے گی۔ ہماری دوسری ترجیح پائیدار معاشی ترقی ہے تاکہ روزگار کی فراہمی اور وسائل آمدنی میں اضافہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرہ کے غریب طبقات بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ان کو بھی گھر، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات دستیاب ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت میں بڑی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ حکومت عام آدمی کی فلاح و بہبود کے اقدامات سے بڑا انقلاب لائے گی۔ معیشت کی بحالی کیلئے جامع اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مستحکم اور مستقل شرح نمو حاصل کرنی ہے۔ ہم ہر آدمی کو اپنا گھر دینا چاہتے ہیں۔ زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو قرضے دینا ہوں گے۔ گردشی قرضے میں کمی لانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالیات کے شعبہ میں بہتری لائی جائے گی جس سے سیونگز بڑھیں گی اور لوگ اپنی رقوم بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہر علاقہ کی سیونگز کو اس علاقہ میں ہی خرچ کیا جائے گا جس سے مساوی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے مساوی ترقی کرنی ہے جو امیر اور غریب سب کیلئے ایک جیسی ہی ہو۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں6 فیصد شرح نمو کے حصول کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی شرح نمو کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ ادارہ برائے شماریات اب وزارت خزانہ کا ذیلی ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ منصوبہ بندی کمشن کے تحت کام کر رہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں زیر خزانہ نے کہا کہ میں نے ماضی میں بھی ہمیشہ اداروں کی خود مختاری کی بات کی ہے اور اب بھی قومی اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلئے ان کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

مزیدخبریں