تجزیہ:محمد اکرم چودھری
پاکستان مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے طرز سیاست پر بیعت کر لی ہے۔ آنے والے دنوں میں دونوں جماعتیں پارلیمنٹ میں سیاست کرتے ہوئے دکھائی دیں گی۔ مستقبل میں احتجاجی سیاست یا سڑکوں کی سیاست کے بجائے بحث مباحثے اور سیاسی گفتگو کے لیے پارلیمنٹ کو ترجیح دی جائے گی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پیپلز پارٹی کا یہی موقف تھا کہ سیاست پارلیمنٹ میں رہ کر کی جائے اس وقت مسلم لیگ ن نے اس سوچ سے اختلاف کیا نتیجتاً اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں سامنے آئیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں شہباز شریف دنیا بھر کے سفیروں سے مل رہے ہیں، وہ پارلیمانی لیڈرز کو عشائیہ دے رہے ہیں جہاں مریم نواز شریف موجود نہیں ہوں گی۔ چودھری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھا کر عملی سیاست میں واپس آ رہے ہیں ان کی سیاست میں واپسی 2023 کے عام انتخابات کے تناظر میں دیکھی جانی چاہیے یہ بھی یاد رکھا جائے کہ "چکری" کے "خان" نے اپنے جگری یار شہباز شریف کے اصرار پر عملی سیاست میں واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ نون لیگ کے محمد زبیر کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو چکی ہے، شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ہماری لڑائی ہی نہیں تھی، مریم نواز شریف روزانہ میڈیا سے بات چیت یا ٹویٹ کرتی تھیں وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دورانیہ بڑھتا چلا جائے گا، جاوید ہاشمی کے معاملے میں ن لیگ کی خاموشی یا علامتی ردعمل بھی بے معنی ہے۔ ہر معاملے میں بیان جاری کرنے والے میاں نواز شریف کی خاموشی میں بھی عقلمندوں کے لیے اشارے ہیں اور سب سے بڑھ کر جب میاں شہباز شریف لندن کا چکر لگا کر آئیں گے اس کے بعد مسلم لیگ نون کا ایک نیا چہرہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ رواں سال دسویں گیارہویں مہینے تک نئی سیاسی بساط کے خدوخال واضح ہو جائیں گے۔ ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے دوستی کر لی ہے اور اب دونوں پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے پارلیمانی نظام کی مضبوطی اور جمہوری نظام کے تسلسل میں اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ سیاسی حالات ایسے ہیں کہ اپوزیشن کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ ہر طرح کی جارحانہ سیاست کے باوجود انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی یوں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات کے باوجود دوبارہ ایک ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو کارکردگی دکھانے کے لیے اس سے بہتر پلیٹ فارم نہیں مل سکتا۔ لگ بھگ سوا دو سال میں اگر پاکستان تحریکِ انصاف عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو 2023 کے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔