ابو محمد حارث شاہ
بھارت ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے۔پوری دنیا میں اپنی جمہوریت پسندی اور سیکولرزم کے ڈنکے بجاتا ہے۔کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو اقلیتوں کے لیے ایک مثالی ملک ہونے کی درفنطنی چھوڑتا ہے۔لیکن ہمیں افسوس سے اس حقیقت کو بیان کرنا پڑتا ہے کہ بھارت دنیا کے نقشے پر واحد ایسا ملک ہے کہ جہاں پر انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔جہاں پر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہے۔بھارت ایسا ملک ہے کہ جہاں پر اقلیتوں کو جینے کے حق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔جہاں کا عام مسلمان خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔بھارت کا حکمران طبقہ بھی انتہائی متعصب ،سنگ دل اور ظالم لوگوں پر مشتمل ہے۔بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت بھی مذہبی تعصب میں اپنی مثال آپ ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دامن پر ابھی تک گجرات کے مسلمانوں کے لہو کے دھبے موجود ہیں۔موجودہ حکمران جماعت کے دور حکومت میں بھارت میں تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔مسلمانوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ان کو عبادت کرنے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمان خواتین کی ٹارگٹ عصمت دری کی جاتی ہے۔نوجوانوںکو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا ہے۔حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو چن چن کر منہدم کیا گیا۔مسلمانوں کی بنائی ہوئی تاریخی یادگاروں کا تشخص مٹا نے کی مذموم سعی کی گئی۔تاج محل کے تشخص پر بھی انگلیاں اٹھائیں گئیں۔قطب مینار کو گرانے کی باتیں کی گئیں۔دلی کے لال قلعہ پر طرح طرح کے سوال اٹھائے گئے۔دہلی کی شاہی مسجد پر بھی نشانے باندھے گئے۔بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تمام دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا۔اور نوبت یہاں آ پہنچی کہ ہندو انتہا پسندوں نے 100سال پرانی مسجد غریب نواز شہید کر دی گئی۔
مسجد شہید کیے جانے پر مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ علاقے کے مسلمانوں نے اعلان کیا کہ وہ اس ظلم کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔ مگر عدل و انصاف سے عاری بھارت میں بی جے پی کی مذہبی انتہا پسند حکومت نے 100 سالہ تاریخی مسجد کو بلڈوزر سے شہید کردیا۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے مسجد بلڈوز کرنے کے بعد ملبہ تک دریا برد کردیا ہے۔یہ افسوسناک سانحہ اترپردیش کے علاقے بارہ بنکی میں پیش آیا ہے۔ شہید کی جانے والی غریب نواز مسجد کی تعمیر انگریز دور میں ہوئی تھی۔عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق ہزاروں بھارتی پولیس اہلکاروں نے پہلے مسجد کا محاصرہ کیا اور پھر مسلمانوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جس وقت مسجد کو منہدم کیا جا رہا تھا اس وقت علاقے میں کرفیو کی کیفیت تھی کیونکہ کسی کو کھڑکی تک کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔بھارت کی تمام ریاستوں میں شہری حقوق سلب چلے آ رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے بھارت کے غیرقانونی زیرتسلط کشمیر میں حریت پسندوں کی برسی پر وادی میں مکمل ہڑتال ہوئی ،وادی کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ کرفیو کے نفاذ کے باعث نماز جمعہ کی ادائیگی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ہڑتال کے دوران زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ مگرکرونا کی تباہ کاریوں کے باوجود بھارت اور مودی سرکار کی انسانیت سو پالیسیاں جاری ہیں۔ ایک طرف اگر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے تودوسری طرف بھارت نے بے بس اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا قافیہ تنگ کررکھا ہے۔
حریت پسند رہنمائوں میر واعظ فاروق، عبدالغنی لون اور دیگر کشمیری رہنمائوں کی برسی پر بھارتی حکمرانوں نے ہڑتال ناکام کرنے کیلئے کرونا، ایس او پیز کے نام پر سخت ترین پابندیاں لگا کر عام لوگوں کو بھی ایک سے دوسرے علاقے میں جانے سے روکے رکھا۔ اس موقع پرمحبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہیدوں کے اس خون سے ہی آزادی کی تحریک ابھرے گی۔بھارت اپنی بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے آزادی کی تحریک کو ختم کرنے میں کئی برسوں سے ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا وادی میں ایسے پولیس اور فوجی آمر تعینات کئے گئے جن کے مظالم کے سامنے انسانیت بے بس ہوکر رہ گئی۔ یہ لوگ اپنے انجام سے بے خبر مظالم ڈھا رہے ہیں۔بھارتی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ کسان تحریک بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ کسان ایک لمبے عرصے سے مظاہرے کررہے ہیں اور بھارت اس سلسلے میں اصلاح احوال کی بجائے تحریک کچلنے کے درپے ہے۔ کسان مورچہ نے 26 مئی کو یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کررکھا ہے۔ کسان لیڈر راکیش نکیت نے کہا ہے جب تک بھارتی کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرلئے جاتے مودی سرکار کیخلاف مظاہروں اور احتجاج کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبات تسلیم نہیں کرلئے جاتے۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں 2017 سے بی جے پی کی حکومت ہے اور ہندو انتہا پسند یوگی ادتیہ ناتھ اس صوبے کا وزیراعلیٰ ہے۔بھارتی غیر جانب دار ذرائع کے مطابق اترپردیش سنی مرکزی وقف بورڈ نے مسجد اور ریاست میں مسلمانوں کی دیگر املاک کو شہید کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے یہ کام کرکے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے جس نے 31 مئی تک کیلئے سٹے آرڈر جاری کر رکھا ہے۔دوسری طرف سنی مرکزی وقف بورڈ نے حکومتی اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔میڈیا میں جاری ہونے والی مزید رپورٹس کے مطابق مقامی رہائشی نوجوان سید فاروق احمد نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ انتظامیہ نے ایک ماہ سے مسجد میں نماز پر پابندی عائد کررکھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب لوگوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے انہیں مارا پیٹا اور گرفتار کرکے مختلف مقدمات بنا دیئے۔رپورٹس کے مطابق مسجد کمیٹی کو شوکاز نوٹس دے کر کہا گیا کہ مسجد ایک سرکاری افسر کے گھر کے سامنے تعمیر کی گئی ہے جب کہ عدالتی حکم کے مطابق ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تمام مبینہ غیر قانونی مذہبی تعمیرات کو منہدم کردیا جائے گا۔میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شوکاز نوٹس میں جو پلاٹ نمبر پر لکھا گیا ہے وہ مسجد کا نہیں ہے اور یہ کہ مسجد سڑک سے 100 فٹ دور بھی ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں کوئی خلل نہیں پڑتا ہے۔رپورٹس کے مطابق مسجد کمیٹی نے اپنے جواب میں تمام حقائق کا ذکر کیا ہے لیکن انتہا پسند جنونی ہندوؤں کی حکومت نے اس پر کان نہیں دھرے اور مسجد منہدم کردی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسجد کی شھادت کا یہ پہلا واقعہ پے؟کیا بھارت میں مسلمانوں کے مقدس مقامات محفوظ و مامون ہیں؟