پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف تنقید کوئی نئی بات نہیں بلکہ جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے لیکن اپنے مخالفین کے خلاف تنقید کو نفرت تعصب اور معاشرے میں انتشار کا رنگ دینے والوں کے بارے جب تاریخ لکھی جاے گی تو عمران خان کا نام اس میں سر فہرست ہو گا۔ آج کل ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر عوامی سطح پر جو بحث جاری ہے اس میں موضوع گفتگو عمران خان کا طرز سیاست اور مخالفین کے خلاف ان کی ہیٹ گفتگو ہے، اب تو خان کے با شعور ساتھی بھی خان کے دفاع میں بیک فٹ پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری کا طرز سیاست اور انداز و بیان اس وقت نوجوان نسل کے ساتھ دنیا بھر کے سنجیدہ حلقوں میں زیر بحث ہے۔ گزشتہ حکومت کے ادوار میں پاکستان کے بارے بیرون ممالک میں کوئی اچھی راے نہیں پائی جا رہی تھی بلکہ اچھی خاصی تنقید کی زد میں تھا لیکن اب اسے خوش آئند سمجھئے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے حالیہ دورے کے بعد سرد مہری میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری امریکہ کے بعد چین کے اہم دورے پر ہیں۔ انہوں نے پاکستان چین سفارتی تعلقات کی 71 ویں سالگرہ مشترکہ طورپر منائی اور کیک کاٹا اور پاک چین تعلقات کے حوالے سے اہم مذاکرات کئے۔
نیویارک میں جب بلاول بھٹو سے ایک پریس بریفنگ کے دوران پوچھا گیا کہ عمران خان کی جانب سے دورہ روس کے باعث یورپ اور امریکہ میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے تو آپ اس سے کیسے نبرد آزما ہوں گے۔ تو انہوں نے ایک سٹیٹس مین کی طرح جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں سابق وزیرِ اعظم کے دورہ روس کا دفاع کروں گا۔ انھوں نے یہ دورہ اپنی خارجہ پالیسی کے حساب سے کیا۔ میرے نزدیک پاکستان کو اس معصومانہ اقدام پر سزا دینا غیر منصفانہ ہو گا۔‘ ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’جب میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے کام کرتا ہوں تو میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہوں۔'
سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو کو عمران خان کے بیان کا دفاع کرنے پر خاصی پذیرائی مل رہی ہے اور اکثر افراد سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان کے بیرونِ ملک دوروں کے دوران دیے گئے بیانات کا حوالہ بھی دے رہے ہیں۔امریکہ کے دورے پر جانے کے بعد سے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کو کسی نہ کسی انداز میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کسی بیان یا اقدام کا دفاع نہ کرنا پڑا ہو۔ اس سے قبل معروف امریکی صحافی کرسٹیان امان پور نے جب ان سے عمران خان کے افغانستان کے بارے میں اس بیان میں پوچھا جس میں انھوں نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کو ’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘ سے تشبیہ دی تھی تو بلاول نے عمران خان پر تنقید کرنے کی بجائے کہا کہ ’ہماری توجہ مستقبل پر ہے، کیونکہ اگر ماضی کے الزامات کے بارے میں بات کی جائے تو امریکہ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔'اس حوالے سے سوشل میڈیا پر صارفین، تجزیہ کار اور صحافی ’بڑا پن‘ دکھانے پر بلاول کی تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ شاید عمران خان ان کی جگہ ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ’اپنے شدید مخالف کے اقدام کا دفاع کرنے کے لیے بڑا پن اور ہمت چاہیے ہوتی ہے جو بلاول میں ہے۔ بلاول بھٹو کے اس اقدام کی تمام افراد کی جانب سے تعریف کی جارہی ہے اور انہیں بہترین سفارت کار قرار دیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ’بالکل واضح‘ ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے اصولوں پر قائم رہنا ہے، ہم کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتے، درحقیقت ہم امن کی اہمیت پر زور دیتے رہیں گے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس تنازع کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے رہیں گے اور ہم یقینی طور پر اس تناظر میں کسی بھی حملہ آور کا ساتھ نہیں دیں گے۔ وائس آف امریکا (وی او اے) کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کے سربراہ کو بتایا کہ پاکستان ’تجارتی اور اقتصادی تعلقات پر یقین رکھتا ہے، نہ کہ بھیک پر۔
کشمیر پر سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ انہیں بھارت کے ساتھ مذاکرات کے امکانات ’بہت محدود‘ دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دورے پر آئے پاکستان کے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ معاملہ کرنا بہت مشکل ہے جو’’بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی نسل پرستانہ پالیسیاں نافذ کر رہا ہے ۔’’انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا‘‘ہم سب اس بات سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اقتصادی سرگرمیاں، مذاکرات، سفارت کاری ہی وہ راستے اور طریقے ہیں جو ملکوں کے مابین آپسی اختلافات کو حل کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔لیکن میں نے یہ بات نوٹ کی ہے، اور بالخصوص اس وقت جو جارحانہ اور مخالفانہ رویہ ہے، اس نے عملی طور پر ایسا کرنے کے مواقع کو بہت محدود کردیا ہے۔‘‘
قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اس عالمی ادارے کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے سبب کشمیری اپنی سرزمین اور اپنے گھر میں اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں۔جو کہ سلامتی کونسل اور اس کی قراردادوں اور جنیوا کنونش کی توہین ہے۔انہوں نے کہا کہ تنازعات کی وجہ سے انسانی بحران جنم لے رہے ہیں اور غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس حوالے سے قائدانہ کردار کے لیے ہم اقوام متحدہ کی طرف دیکھتے ہیں۔