کراچی(نیوز رپورٹر) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ چھوٹے کسانوں نے حالات سے تنگ آکر کاشتکاری چھوڑ دی ہے اور شہروں میں رکشہ چلا کر گزارا کر رہے ہیں۔ کھاد، بیج، انسیکٹی سائیڈز اور پیسٹی سائڈز اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ چھوٹے کاشتکاروں کے لئے زراعت پر انحصار ناممکن ہو گیا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ چولستان سمیت پاکستان کے بہت سارے علاقوں کو قحط سالی کا سامنا ہے۔ 70 فیصد زراعت والا ملک غلط پالیسیوں کی وجہ سے گندم، چینی اور دالیں امپورٹ کرنے پر مجبور ہے۔ حکومتوں نے ہمیشہ کاشتکاروں اور غریبوں کو نظر انداز کیا ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ نہ کام دھندہ ہے اور نہ بنیادی سہولیات دستیاب ہیں۔ بلاول زرداری بیرون ملک کے دوروں کی بجائے زرا لاڑکانہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں میں جھانک کر دیکھیں۔ حکومت نے بروقت اقدامات نہ کئے تو ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی کسان خودکشی کرنے پر مجبورہو جائیں گے ۔ پاکستان کے کسانوںکے حالات ہندوستان کی کسانوں سے زیادہ ابتر ہیں۔ صرف اللہ پر ایمان نے انہیں خودکشی سے روک رکھا ہے۔اگر جاگیردار کسانوں کو ان کا حق نہیں دیتے ہیں تو کسان اسے چھین لیں، پاسبان ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ جب مزارعوں کو ہی روٹی میسر نہیں ہے تو کھیتوں کے ہر خوشہ گندم کو جلا دینا چاہئے۔ حکومت زراعت کو ایک انڈسٹری کا درجہ دے کر کسانوں کو تمام مطلوبہ سہولیات مہیا کرے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدگی سے سوچ بچار کرے ورنہ آنے والے سالوں میں گندم اور دیگر زرعی اجناس کی کمی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ پاسبان اسٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ میںپی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے کسانوں کو درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج تک کسانوںکے مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ چند فیصد بڑے جاگیردار چھوٹے کسانوں اور مزارعوں کا خون چوس رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے چھوٹے کسانوں کے مسائل پر عدم توجہی کی وجہ سے اب چھوٹے کسان کاشتکاری چھوڑ کر مزدوری کے لئے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ چند بڑے جاگیر داروں کے علاوہ ملک کے 70% چھوٹے کسان ہیں جو ملک کی زراعت کی جان ہیں، ان کے مسائل سے حکومت کی عدم دلچسپی زرعی ملک کو دیوالیہ کر دے گی۔کسانوں کی محنت سے ملک میں زندگی کی رونقیں ہیں لیکن انکی محنت کے عوض انہیں خوشحالی کی بجائے بد ترین بد حالی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ محنت کسان کرتا ہے جبکہ فائدہ بڑا جاگیر دار اورسرمایہ دار اٹھاتا ہے۔ زرعی ادویات، بیج اور کھادوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ کئی کئی ماہ کی محنت کے بعد بھی کسان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔حکومت کسانوں کو زرعی ادویات، بیج اور کھاد مناسب داموں فراہم کرنے کے انتظامات کرے ۔ زراعت ملک کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود غلط حکمت عملی کی وجہ سے بری طرح نظر انداز اور تباہ ہورہا ہے ۔ کسانوں کو ظالمانہ و جاگیر دارانہ نظام، آبپاشی کے بوسیدہ نیٹ ورک اور پانی کی کمی ،فرسودہ اور پرانے طریقہ کاشتکاری،مہنگی اور جعلی زرعی ادویات، سودی زرعی قرضوں جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔کسانوں کو ان کی اجناس کے معقول معاوضے بھی نہیں ملتے۔ جی ایم اوز بیجوں کی کاشت پر سختی سے پابندی عائد کر کے زرخیز زمینوں کو بنجر ہونے سے بچایا جائے۔ زراعت کو بہت بڑی صنعت بنایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے حکمران صرف اقتدار انجوائے کرنے کے لئے حکومت میں آتے ہیں ۔زراعت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تو پاکستان ہر قسم کے قرضوں سے آزاد ہو سکتا ہے#