حضرت امیر خسروؒ

مجھے پہلی مرتبہ1999ء اور پھر دوبارہ ماہ اکتوبر 2004ء میں حضرت امیر خسروؒ اور خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی دہلوی ؒکی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوا دل میں کافی عرصے سے یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ حضرت امیر خسرو ؒ قطب الاقطاب اور چراغ دہلویؒ کے دربار پر حاضری دوں اور ان کے مقدس مقامات کے مناظر اپنے دل کی تختی پر نقش کروںیہ دعا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظور ہوئی،میرے مخلص اور محسن پیرو مرشدسید مستان شاہ سرکار حق با با ؒ کی کوششوں سے میرا نام بھی زائرین میں شامل ہو گیاوہاں پہنچ کر جو قلبی و روحانی سکون ملا و ہ بیان سے با ہر ہے ۔امیر خسروؒ کا پورا نام ابو حسن یامین الدین خسروؒ تھا آپ 1255ء میں پیداہوئے رب کریم کے سوا کون جانتا تھا کہ سیف الدین شمسی کے گھر پیدا ہونے والا یہ بچہ آنے والے دور میں برصغیر میں اپنی صوفیانہ شاعری اور موسیقی کا جادو جگائے گا امیر خسروؒ کا آبائی گائوں اتر پردیش پٹیالہ میں ہے آپ کے والد سیف الدین ترک نژاد تھے انہوں نے 1206میں دہلی کی طرف ہجرت کی۔ امیر خسروؒ کی پیدائش پر ایک صوفی درویش نے آپ ؒ کے والد کو کہا تھا کہ تم ایک ایسے بچے کے باپ ہو جو بلبل سے بھی دو قدم آگے جائے گا۔حضرت امیر خسروؒ کے والد محترم کی پیدائش شہر کش میں ہوئی ان کا تعلق قبیلہ لاچین سے تھا۔ اس قبیلے کا شجرہ نسب قرشیوں سے جا ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا اپنی برادری کے افراد سے جھگڑا ہوگیاتو امیر محمودؒ اپنے اعزہ کو لیکر بلخ کے نواح میں سکونت پذیر ہوگئے۔ایک مدت یہاں مقیم رہے لیکن یہاں بھی بحسب تقدیر ولکیرہوکر کابل کے مضافات میں واقع گائوں غور بند میں چلے آئے۔مخزن اخبار کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت امیر خسروؒ اسی گائوں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد امیرمحمودؒ نے ان کا نام ابوالحسن رکھا اور یمین الدین کے لقب سے نوازا۔ امیر خسروؒ کی پیدائش کے بعد گھر میں مال و دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ امیر خسروؒ کی عمر ابھی پانچ سال کی تھی کہ تموچن خان عرف چنگیز خان نے کابل پردھاوا بول دیا۔ امیر محمود نے چنگیزخان کے متوقع ظلم وستم کے پیش نظر ہندوستان کی طرف ہجرت اختیار کر لی اور سلطان محمد تغلق کے ہاں پناہ لی۔سلطان محمد تغلق نے امیر محمودؒ کی آمد کو اپنے لئے نیک فال تصور کیا۔ اس پر بہت سی نوازشیں کیں اور اسے دربار میں ایک عظیم فرد کا عہدہ تفویض کیا۔اسے سیف الدین کے خطاب سے نوازا گیا۔امیر محمود سیف الدین نے قابل تعریف کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ آخر پچاسی سال کی عمر میں کفار کے ہاتھوں ایک جہاد میں شہید ہوئے۔حضرت امیر خسروؒ نے اپنے والدؒ کی شہادت پر ایک دردناک مرثیہ لکھا جسکا مطلع یہ ہے:
سیف از سرم گزشتہ و دل من دونیم ماند
دریائے من روان شد و در یتیم ماند                                                                 
ہمارے صوفیا ئے کرام نے قوالی کو تزکیئہ نفس وتصفیہ قلب کا ذریعہ قرار دیا۔حضرت امیر خسروؒکو موجودہ موسیقی کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔امیر خسروؒ ایک عجیب وغریب Genius تھے۔ ان کی شخصیت پہلو دار تھی۔انہوں نے گیارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔سات بادشاہوں کے مشیر ووزیر رہے۔پانچ لاکھ شعر فارسی میں کہے اور ’’طوطئی ہند‘‘کہلائے۔اردو زبان کے موسس بھی خسرو ہی ہیں۔ان کی پہیلیاں ،کہہ مکرنیاں ،دو سخنے اور لطیفے آج تک زباں زد خلائق ہیں۔علماء الدین خلجی کے دربار میں جب ان کا مقابلہ جگت گرونا یک گو پال سے ہوا تو اسے نیچا دکھانے کے لئے انہوں نے دُھرپد کے مقابلے میں طرح طرح کی اختراعین اسے سنائیں۔نایک گوپال ان کی موسیقانہ ذہانت کو دیکھ کر اتنا مرعوب ہوا کہ ان کا شاگرد ہو گیا۔امیر خسرو کی ان اختر اعات میں سے قول ،قلبانہ،نقش ،گل،ہوا،بسیط،موہلہ ،ترانہ،تروٹ اور منڈھا اب بھی ہماری موسیقی کی مایہ ناز Formsسمجھی جاتی ہیں،قول ہی سے قو ّال اور قوالی کے الفاظ مشتق ہیں۔بعد میں قوالی ایک مخصوص قسم کا گانا بن گیا جس میں متصوفانہ کلام گایا جانے لگا اور الفاظ اور مصرعوں کی تکرار سے تاثر پیدا کیا جانے لگا۔اہل دل پر اس گانے کو اتنا اثر ہوتا ہے کہ ان پر وجدوحال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بلکہ اکثر وجد میں جان تن سے جدا بھی ہوگئی جیسا کہ روایت ہے کہ
کشتیگانِ خنجر تسلیم را                                                           
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است                                                           
پر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ پر تین دن تک حال کی کیفیت طاری رہی اور اسی شعر پر آخران کا طائرروح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔حضرت امیر خسروؒ اپنی جوانی میں ’’سلطانی‘‘ تخلص کیا کرتے تھے۔آپؒ کوتعلیم و تربیت کیلئے انہیں ان کے ماموں عماد الملک کے سپرد کیا گیا چنانچہ حضرت امیر خسرو نے غرۃ الکمال کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ عماد الملک ایک عالم و فاضل شخص تھا۔ جنوبی ایشیاء میں جن صوفیائے کرام نے اسلام کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں عظیم صوفی شاعر حضرت امیر خسروؒ کا نام بھی نمایاں ہے آپ کلاسیکل موسیقی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں امیر خسروؒ کو فارسی شاعری میں درجہ کمال حاصل تھا ۔امیر خسروؒ کی عمر جب آٹھ سال تھی تو آپ کے والد وفات پا گئے ۔ آپ کی والدہ آپ کو دادا کے پاس لے کر دہلی آئیں امیر خسرو کے دادا عماد الملک غیاث الدین، بلبن کے دربار میں کام کرتے تھے دہلی جیسے مرکزِ علم وفن اور پررونق شہر میں جوان امیر خسروؒ  نے اپنے دادا کے مکان میں شاعری اور تخلیقی کاموں سے جلد ہی اپنا مقام بنانا شروع کیا ۔سولہ سال کی عمر تک خسروؒ کے ہاتھ میں جو بھی کتاب لگی وہ اس کے مصنف کے فن کو کمپوزیشن میں سمونے کی کوشش کرتے 1271ء میں امیر خسروؒ نے اپنا شاعری کا پہلا دیوان مرتب کیا جس کا نام ’’تحفہ العفر‘‘ تھا خسرو اس کے اگلے سال سے ہی شاہی دربار کے ساتھ منسلک ہوئے 1279ء میں خسروؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’وسط الحیات‘‘ لکھی۔دہلی کے شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے امیر خسروؒ کا روحانی تعلق حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سے تھا جنہوں نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ سے فیض پایا تھا۔آپؒ نے 1310ء میں خواجہ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔یہ تو میرے مرشد سرکار حق بابا برکاتہم کی مجھ پر خاص نگاہِ کرم ہے کہ مجھے 1999ء اور اکتوبر 2004ء میں حضرت سلطان المشائخ خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی دہلوی ؒ کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوا دل میں کافی عرصے سے یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ حضرت امیر خسروؒ وقطب الاقطاب حضرت بختیار کاکیؒ اور چراغ دہلویؒ کے دربار میں حاضری دوں اوران کے مقدس مقامات کے مناظر اپنے دل کی تختی پر نقش کرو، یہ دُعا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظور ہوئی میرے مخلص اور محسن مرشد سرکارحق بابا برکاتہم کی نظر کرم سے مجھے دہلی (بھارت)جانے کا اتفاق ہوگیا ان مقدس مقامات پر پہنچ کر جو قلبی و روحانی سکون ملا وہ بیان سے باہر ہے قارئین کرام! حضرت نظام الدین اولیائؒ کے پہلو ہی میں دوسری جانب حضرت امیر خسروؒ کا مزار ہے اور نظام الدین اولیاء ؒ کے مزار کے باہر ایک تختی آویزاں ہے جس پر تحریر ہے کہ کوئی بھی میرے(حضرت نظام الدین اولیائؒ کے) مزار کی حاضری کیلئے آنے سے پہلے امیر خسروؒ کے مزار پر حاضری دے اور اس کے بعد میرے مزار پر حاضر ہوں۔ قارئین کرام اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیائؒ کی اپنے پیارے مرید خاص سے کتنا پیار تھا ؟
خسرو لکھتے ہیں کہ میں نے محبوب سے پوچھا کہ چاند سے روشن تر کون ہے محبوب نے جھٹ جواب دیا میرے رخسار کے سوا کون ہوسکتا ہے۔
گفت، کہ روشن از قمر؟ گفتاکہ رخسار من
پھر شاعر محبوب سے پوچھتا ہے کہ کس کی باتیں شہد سے شیریں تر ہیں تو محبوب کی طرف سے جواب آتا ہے میری اور کس کی۔
گفتم کہ شیریں از شکر؟ گفتا کہ گفتارمن
پھر شاعر نے پوچھا عاشقوں کی موت کیوں کر واقع ہوتی ہے جواب آتا ہے کہ میرا فراق انہیں مارکے رکھ دیتا ہے اور کہا۔
گفتم کہ مرگ عاشقاںَ گفتا کہ درہجر من
پھر خسرو نے پوچھا کہ اس کا علاج کیا ہے جواب آیا کہ میرا دیدارووصال۔
گفتم کہ علاج زندگی؟ گفتا کہ دیدار من
پھر شاعر پوچھتا ہے کہ اے محبوب تم حورہو یاپری تو وہ بڑے ناز و انداز سے کہتا ہے میں اپنی مرضی کا مالک بادشاہ ہوں تو کون ہے پوچھنے والا۔
گفتم کہ حوری یا پری؟ گفتا کہ من شاہ زمن

امیر خسروؒ کی حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے ساتھ وابستگی 1310ء میں ہوئی اس وابستگی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے امیر خسروؒ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی خانقاہ پر پہنچے تو ایک ہی دم خانقاہ میں داخل نہیں ہوئے بلکہ گیٹ پر بیٹھ کر کچھ اشعار لکھے جس کے جواب میں خواجہ صاحبؒ نے بھی جواباً اشعار بھجوائے امیر خسروؒ نے جب خواجہ صاحبؒ کے اشعار سنے تو جان گئے کہ وہ ایک درست مقام پر پہنچے ہیں۔امیر خسروؒ تمام دن شاہی دربار میں خدمات سرانجام دیتے اور رات کو خواجہ صاحب کے پاس روحانی تزکیہ نفس کرتے خواجہ صاحبؒ کی نظر و کرم سے خسروؒ انمول ہو گئے ۔ امیر خسروؒ کا دل خواجہ صاحب کی درگاہ کے ساتھ اٹکا رہتا تھا خواجہ صاحبؒ کو بھی امیر خسروؒ بہت عزیز تھے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سلسلہ نظامیہ کے بانی تھے آپ بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے پیروکار تھے ایک دن سلطان جلال الدین خلیجی نے امیر خسروؒ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ خواجہ نظام الدین اولیاء سے ملنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی خواجہ صاحب کو اس کے آنے کی اطلاع نہ دی جائے امیر خسروؒ یہ سن کر سخت پریشان ہوئے لیکن آخر کار خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سے ساری بات بتادی خواجہ صاحب خلجی سے ملنا نہیں چاہتے تھے اور خانقاہ سے چلے گئے جب خلجی کو معلوم ہوا توامیر خسروؒ سے پوچھا کہ اس نے سلطان خلجی سے بدعہدی کیوں کی خسروؒ نے جواب دیا کہ بادشاہ وقت سے بے وفائی کر کے فقط اس دنیا میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لیکن خواجہ صاحبؒ سے بے وفائی کر کے میں دین اور دنیا دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا جو مجھے گوارہ نہیں تھا سلطان خلجی نے امیر خسروؒ کا جواب سن کر سر جھکالیا۔امیر خسروؒ نے ایک دفعہ ایک صوفیانہ کلام خواجہ صاحبؒ کے سامنے پڑھا جس کو سن کر خواجہ صاحبؒ بہت خوش ہوئے اور امیر خسروؒ سے کہا کہو کیا مانگتے ہو امیر خسروؒ نے کہا میری خواہش ہے کہ میرے اشعار میں شگفتگی آجائے خواجہ صاحبؒ نے فرمایا جائو اور میری پوشاک کے نیچے سے ایک طشتری لے آئو خسروؒ طشتری لے آئے جس میں کچھ چینی تھی حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے خسروؒ  سے کہا کہ اس چینی میں سے کچھ کھالو اور کچھ سر پر انڈیل لو خسروؒ نے حکم کی تعمیل کی خسروؒ کے مطابق اس دن کے بعد اس کی شاعری میں شگفتگی اور مٹھاس بڑھ گئی اور اس کے بعد امیر خسرو کی اپنے شیخ کے ساتھ الفت اور وارفتگی اور بھی بڑھ گئی۔حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے حضرت امیر خسرو دہلویؒ کو مثنوی اسرار و رموز میں ظاہر و باطن خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
خسرو شیرین بیاں رنگین زبان
نغمہ بالش از ضمیر کن فکاں
شاعر نامی و گرامی عماد الدین نور الدین عبدالرحمان جامی ؒ نے بہارستان میں لکھا ہے کہ امیر خسروؒ شعر میں صاحب تفنن شخصیت ہیں۔علامہ شبلی بھی حضرت امیر خسروؒ کو برصغیر کا سب سے بڑا شاعر کہتے ہیں اردو کے پہلے اشعار بھی آپؒ نے کہے ۔
تعال  مسکین  مکن تغافل   درائے نیناں   بنائے بتیاں
کہ تاب ہجران نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے گھائے چھتیاں
 انہوں نے قصیدہ، غزل اور مثنوی کو اپنایا اور تینوں کوبام عروج تک پہنچایا۔ آپ کی مثنویوں کی شان ہی الگ ہے۔ یہ مثنویاں پوری آب و تاب سے چاپ ہو چکی ہیں۔حضرت امیر خسروؒ نے اپنے رسائل میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے اشعار کی تعداد پانچ لاکھ سے ذرا کم ہے۔اہل تحقیق کی کائوشوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسروؒ نکتہ سنجاں اور سرور خرد مندان ہونے کے علاوہ علم موسیقی میں مہارت نامہ اور مزاولت خاصہ رکھتے تھے ،اہلِ ہندان کی تصنیفات سے پورا پورافائدہ اٹھا رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہندوستان کے سب سے عظیم موسیقی کار گوپال نائیک نے آپ کو (CHALLENGE) بھیجا۔ آپ نے اس کا چیلنج قبول کر لیا۔ گوپال نائیک ایسے تخت پر براجمان ہو کر دہلی آیا کہ اس کے سنگھاسن کو چالیس مزدور اٹھاتے تھے۔ ہزاروں افراد کی موجودگی میں گوپال نائیک نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔جب حضرت امیر خسروؒ کی باری آئی تو آپ نے آیت قرآنی ’’جآء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘راگ مال کونس میں گائی۔ جوں جوں آپ اپنے فن کا اظہار کرتے گئے گوپال نائیک کی حالت غیر ہوتی گئی اور آخر میں اس کے سنگھاسن کو آگ لگ گئی اور وہ جان بچا کر بھاگا۔حضرت امیر خسرو نے بلبن اور اس کے بیٹے 
کے شاندار قصائد لکھے ۔امیرخسروؒ کو حضرت سعدی شیرازی سے محبت تھی۔
حضرت سلطان المشائخ نے کبھی بھی کسی بادشاہ سے ملاقات نہیں فرمائی جبکہ نذرانوں کا یہ عالم تھا کہ اشرفیوں اور رائج الوقت روپوں کی تھیلیاں و طباق آتے مگر چند ہی لمحوں میں مساکین و ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے لئے تقسیم فر ما دیتے محبوب الہی کی قربت و خدا اور رسول اللہ ؐ میں حضرت خواجہ امیر خسرو اور حضرت بو علی شاہ قلندرؒ پانی پتی کا وہ واقعہ جو قلندر صاحب نے بزم حبیب ؐکی مجلس قدسی میں ملاحظہ کیا اور امیرخسرو صاحب نے اپنے شیخ کا یہ مرتبہ اختصاص اپنی کھلی آنکھوں سے ملاحظہ فر ما یا تو بے ساختہ و فی البدیہ کہہ اٹھے کہ 
خدا خود میر مجلس بو داندر لا مکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم
حضرت محبوب الہی کی بارگاہ جلال میں حضرت امیر خسرو ؒ کو کیامقام حاصل تھا اس کااندازہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے اقوال مبارکہ سے ہو تا ہے آپ فر ما یا کرتے تھے اگر قیامت میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ نظام الدین تو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے تو میں عرض کرونگا کہ ’’ترک کے سینے کا سوز لا یا ہوں‘‘ حضرت محبوب الہی حضرت امیرخسرو ؒ کوکبھی ترک اور کبھی ترک زادہ کہہ کر پکارتے تھے معتبر روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کبھی کبھی ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ ‘‘ اس ترک کے سوز دراں کے طفیل مجھے بخش دے امیرخسرو جس وقت چاہتے بلا تکلف اپنے پیرمرشد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مریدوں میں امیرخسرو ؒ کے سوا کسی کو حاصل نہیں تھا ایک بار حضرت محبوب الہی نے حضرت امیر خسرو کے بارے میں یہ 
شعر برسر مجلس پڑھا اور اپنی بزرگانہ محبت کااظہار اس طرح فر ما یا ۔
گر بدائے ترک تر کم آرہ بر تارک نہند 
ترک تارک گیرم و ہر گز نہ گیرم ترک ترک
              (اگر میری پیشانی پر آرہ رکھ دیا جائے اور کہاجائے کہ اپنے ترک (خسرو) کو چھوڑ دو تو میں اپنی پیشانی چھوڑ دوں گا مگر اپنے ترک کوہر گز نہیں چھوڑوں گا )
پھر ایک موقع پر اس مشہور زمانہ منقبت کا مصرع ہے جو حضرت امیرخسرو ؒ نے اپنے پیر ومرشد حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی شان میں کہی تھی اس مصرع میں اہل ایمان کی روحانی طاقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ 
چھاپ تلک سب چھین لی مو سے نیناں ملائے کے
( وہ تیری ایک نظر کیا تھی کہ جس نے میرے ماتھے سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالیں )
 امیر خسرو کے بارے میں دنیائے موسیقی کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ ان سے بڑا ماہر موسیقی برصغیر کی دھرتی پر پیدا نہیں ہوا۔ اس نے نہ صرف موسیقی کے پرانے راگوں پر عبور حاصل کیا بلکہ کئی راگ راگنیاں بھی خود ایجاد کیں اور اس کے ساتھ سب سے بڑی بات موسیقی کے کئی ساز ایجاد کرنے کا سہرا بھی ان کے سر بندھتا ہے۔امیر خسروبجر تصوف کے بھی بہت بڑے شناور اور حضرت نظام الدین اولیاء کے خاص الخاص مرید تھے۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ کو ان سے دلی محبت تھی اور حضرت امیر خسروؒ  بھی ان کے قدموں میں سر رکھ کر سوجایا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے شیخ نظام الدین اولیاء ؒ کی انتقال کی خبر سنی تو آپ شہر ہی میں تھے فوراًپہنچے اور اپنے شیخ چار پائی پر کپڑا اوڑھے دیکھا تو یہ شعرپڑھا اور خود بھی اپنے شیخ کے پیچھے پیچھے ہی داعی اجل کو لبیک کہی۔جب یہ شہنشاہ سخن، پیکر صفا، مجسم وفا، عاشق بربلا، نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اس وقت آپ کی عمر مبارک74سال اور یہ 725ھ 18شوال کی شب کو دنیا ایک ماہر فن ہرب ادیب،سخنور ہفت زبان شاعر، موسیقار ، عالم اور صوفی سے محروم ہوگئی۔آپ کے عُرس مبارک کی تقریبات18شوال سے شروع ہو جاتی ہیں۔حضرت نظام الدین کے مزار سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد اب بھی بستی نظام الدین اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ جہاں جب وہ نماز پڑھاتے تو دلی کے بڑے بڑے رئوسا اور شہزادے آکر پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور ان کے سلام پھیرتے ہی الٹے قدم باہر نکل جایاکرتے۔ حضرت امیر خسرو اور دوسرے بڑے بڑے صوفیاء و اہل اللہ اس مسجد میں نماز پڑھتے تھے ۔ دلی جانے والا ہر مسلمان اس مسجد میں دو نفل ضرور ادا کرنا چاہتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن