ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں دن بدن اوپر جا رہا ہے اسکی وجہ امریکہ کا شرح سو دمیں اضافہ اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے ۔لیڈران کرام لش پش اے سی والی مہنگی ترین گاڑیوں ،گھروں اور دفاتر میں یا پھر جلسوں میں ہر دم قوم و ملک کے غم میں گھلے جا رہے ہیں، بقول اکبر آلہ آبادی ’’غم لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘ بے بس غریب عوام کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ کریں تو کیا کریں جائیں تو کدھر جائیں کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں، صورت حال تو کچھ اس طرح کی ہے کہ محکمہ ٹیکس اور اسطرح کے دیگر متعلقہ محکمے جن کا کام ٹیکس اکٹھا کرنا، قیمتوں کا تعین اور مارکیٹ پر نظر رکھنا ہوتا ہے کے نچلے درجے کے اہلکار جن میں اکثر چپڑاسی اور کلرک وغیرہ ہوتے ہیں دوکانداروں، بیکری والوں اور ریسٹورنٹس والوں اور دیگر چھوٹے کاروباری حضرات کے سر چڑھے رہتے ہیں کہ ان کی جیبیں گرم کریں تاکہ انکے ٹیکس میں کمی کروا دیں ۔ یوں چھوٹے کاروباریوں کو خوفزدہ کرکے اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹوں میں دوزخ کی آگ بھرتے ہوں لیکن خرابی تو ٹیکس اکٹھا کرنے اور مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے نظام میں کہیں نہ کہیں ضرورت کارفرما ہے جس کی وجہ سے اس سطح کے لوگ بھی چھوٹے کاروباریوں کے لیئے پردھان بنے ہوتے ہیں ان چھوٹے اہلکاروں کی لوٹ مار مقامی سطح پر مہنگائی کا باعث بنتی ہے ان سے نجات کے لیئے متعلقہ محکموں کو لائحہ عمل بنا نا چاہئیے تاکہ گلی محلوں میں اپنے محکموں کا رعب جمانیوالے چھوٹے درجے کے سرکاری اہلکاروں کی چیرہ دستیوں سے کاروباری حضرات کو نجات مل سکے، دوکانداروں کی شکایات سننے کے لیئے کم از کم یونین کونسل کی سطح پر موثر انتظام ہونا چاہئیے تاکہ اس لوٹ مار کا اثر گلی محلے کے عام صارفین پر نہ پڑے کیونکہ چھوٹے کاروباری رشوت میں ادا کی گئی جنس اور رقم قیمتوں میں اضافے اور کم معیار کی چیز مہیا کر کے صارفین سے وصول کرتے ہیں جس سے عوامی بے چینی میں اضافہ سیاسی طالع آزماوئں کے لیئے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کے مترادف ہے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مقامی سطح پر چھوٹے کاروباری طبقے پران اٹھائی گیروں کا خوف کم کرنے اور انکی اصل اوقات سے آگاہی کی
مہم چلانے کا کوئی موثر اور باقاعدہ انتظام ترتیب دیا جائے؟ملکی زر مبادلہ کی بچت کے لیئے غیر ملکی اشیاء کی حوصلہ شکنی، پٹرول اور بجلی کے کم سے کم استعمال کے لیئے ملکی سطح پر مہم کی ضرورت ہے جسے ایک تحریک کی شکل دی جائے، اس سلسلے میں ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا ثبوت دینا چائیے ورنہ یہ لاپروائی چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات بننے میں زیادہ وقت نہیں لے گی، مہنگائی میں اضافہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاوء سے بھی ہوتا ہے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں من مانا اضافہ تو پٹرول کی ایک روپیہ فی لیٹر قیمت کے اضافے پر بھی کردیا جاتا ہے جبکہ یہ اضافہ پٹرول کی قیمت پانچ روپے کم ہونے پر بھی نیچے نہیں آتا ایسا یا تو متعلقہ محکموں کی نااہلی، غفلت یا پھر ملی بھگت سے ہوتا ہے اس کا سد باب اعلی افسروں کے مسلسل چھاپوں اور موقعے پر بھاری جرمانوں سے ممکن ہے۔جب بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو صرف پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے کرایوں میں ہی اضافہ کیا جائے نہ کہ گیس پر چلنے والی گاڑیوں کے کرایوں میں بھی اضافہ کرنے کی اجازت دے دی جائے، لوکل ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں فی لیٹر قیمت، متعلقہ سٹاپ تک فاصلے اور فی سواری کی نسبت سے طے کی جائے نہ کہ دو چار یا آٹھ دس روپے اضافے کی صورت میں اس نسبت سے کئی گنا زیادہ اضافہ کرکے مہنگائی کا شکار عام آدمی کو مزید معاشی بوجھ کا شکار کیا جائے، کرایوں میں نسبت کے اصول کو اپنانے سے موجودہ کرایوں میں قابل ذکر کمی ممکن ہوگی۔ پٹرول پر سبسڈی دے کر ملکی معیشت کی کمر میں جو خنجر گھونپا گیا ہے اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا نہ ہی ہوگا لہذا اسکو ختم کرکے راشننگ اور انتظامی ہنرمندی اور قانونی سقم دور کر کے قابو پانے کی حکمت عملی موثر ہو سکتی ہے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے
مہنگائی میں کمی کے لیئے جہاں انتظامی اداروں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے وہیں عوام اور سیاسی پارٹیوں، سوشل ویلفیئر کی تنظیموں اور مساجد کمیٹیوں اور مختلف اداروں کی یونینز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے اور اپنے علاقوں میں قیمتوں پر کنٹرول اور اشیائے ضرور یہ کی کوالٹی پر نظررکھنی چاہئیے ضروری ہو تو چھوٹے تاجروں سے بات چیت سے معاملات کی بہتری کی کوشش بھی کرنی چاہئیے،مقامی اور ملکی سطح پر چیزوں کی قیمتوں کے بڑھنے پر عوام کو انکے کم استعمال، کچھ عرصے کے لیئے یا ہفتے کے کچھ دنوں میں بلکل نہ خریدنے کی ترغیب دی جائے اور عوام کو اسطرح کے حالات سے نبرد آزما ہونے کی تربیت دی جائے تاکہ مصنوعی مہنگائی کنٹرول کی جا سکے۔ اگر حکومت بڑے کولڈ سٹوریج ختم کر دے اور شہروں کے مختلف مقامات پر بازاروں میں کھیتوں سے براہ راست اشیائے خوردو نوش کی فروخت کی اجازت (بغیر مڈل مین کی مداخلت کے) دے تو مہنگائی میں خاطر خواہ کمی ممکن ہے۔ مہنگائی کی بہت بڑی وجہ تو ذخیرہ اندوزی اور اشیائے ضرور یہ کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر ہوتے ہیں ان لوگوں سے سماج دشمن عناصر کی طرح نبٹنے اور انھیں عبرت کا نشان بنانے سے ہی ان کا خاتمہ ممکن ہے اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی ضرورت ہے ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کو قوم و ملک سے غداری قرار دے کر اس جرم کے مرتکبین کو سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ کوئی ایسا جرم کرنے کی جرات بھی نہ کر سکے۔ این۔جی۔اوز اور سیاسی جماعتیں مہنگی ہوتی اشیاء کے سستے بازار لگائیں جن میں کارکنان کی مزدوری جتنے منافع کی گنجائش پر عوام کو سستی اور معیاری اشیاء مہیا کی جا سکیں۔مہنگائی کے عفریت اور ملکی معیشت کی زبوں حالی کے مد نظر ہر پاکستانی کو اپنے دائرہ کار میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اگر ہم ملک کو درپیش مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے روٹی کے چند نوالے کم کھائیں، چینی کا ایک چمچہ کم استعمال کریں، دودھ کے چند گھونٹ کم لیں، گوشت کی ایک بوٹی کم کھائیں اور ہانڈی میں محض آدھ چھٹانک سبزی اور مصالحے وغیرہ کم استعمال کریں، چائے کی چوتھائی پیالی کم پیئیں، دو میل تک جانے کے لیئے گاڑی استعمال نہ کریں یا کم از کم دن یا ہفتے میں ایک دن استعمال نہ کریں تو ہمارے ملکی بجٹ کا بہت سارا بوجھ کم ہو سکتا ہے اور مہنگائی پر بھی فرق پڑ سکتا ہے اسی طرح ہم گھروں، دفتروں اور دوکانوں میں غیر ضروری بجلی استعمال نہ کریں یا بجلی کا بٹن آف کرنے میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں تو ہماری صنعتوں کے لیئے کافی بجلی بچائی جا سکتی ہے اور مہنگائی کو بھی روکا جا سکتا ہے دراصل ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے فرد کو عظیم ملت کا حصہ ہونے اور اس کی مشکلات میں اپنے کردار کی اہمیت کا احساس اور ذمہ داری کا ادراک ہی ملک کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ملک کو درپیش مہنگائی، غربت،تعلیم اور صحت کے مسائل کو اپنی حد اور دائرہ کار میں حل کرنے کی اپنی سی کوشش ہی اصل عبادت ہے کیونکہ اس سے انسانوں کے لیئے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں اور آسا نیوں کا لامنتہا سلسلہ صدقہ جاریہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔