1972ء کا اخباری تراشہ

 یقین کریں کہ آج جن حالات کی وجہ سے ملک  کے ڈیفالٹ  کے خدشہ کی باتیں کھلم کھلاکی جاتی ہے یہ نئی نہیں ۔سیاسی اور معاشی منظر ایک جیسا ہی رہا ہے،ذاتی دشمنی کی حدو ںکو چھوتی ہوئی سیاست ، مہنگائی اور  سکڑتے ہوئے مالی وسائل  نے ملک کو انتہائی مشکل میں ڈال رکھا ہے ۔سیاست عجب ہے،جس کا مقصد ترقی کا ایجنڈا نہیں ہے ،بس اقتدار سے چمٹے رہنے کو سیاست کہا جاتا ہے ،اقتدار ہی  اصل  چاہت ہے اگر اس کے لئے کسی ڈکٹیٹر سے ہاتھ ملانا پڑے تو بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی ،اقتدار مل جائے تو ڈلیور نہیں کر پاتے،نکل جائیں یا نکالے جائیں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ،عجب تماشا ہے کہ کیامعاشرہ ہے جس کے پاس وقت بہت ہے،جب چاہیں تماشا لگا لیں،بے پروائی کی انتہا ہے کہ ملک نیچے کی جانب جا رہا ہو اور منظر اور پس منظر میں سیاسی کارگل ہو رہی ہو ،جو بھی  فاش غلطی کر رہا ہے ،اب  روکنا ہو گا،دنیا اب ذیادہ مواقع دینے والی نہیں ہے۔کچھ روز ہوئے کسی نے 1972ء کے  انگریزی اخبار کا ایک تراشہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تھا ،اس تراشے میں بتایاگیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی  لون لیا ہے  جس کے لئے پاکستان کو روپے کی قدر میں کمی لانا ہوگی ،یوٹیلٹیز کے نرخ بڑھانا ہوں گے ،اور دوسرے مطالبات  بھی  وہی تھے جو آج کے پروگرام میں بھی کئے گئے ہیں،یعنی مطالبات بھی پرانے ہیں اور مسائل بھی نئے نہیں  ،ایف بی  آر کے سابق چئیر مین شبر زیدی نے کسی مقام پر ایک گفتگو کی تھی جس میں کہا تھا کہ پاکستان تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے ،جب بات لیک  ہوئی  اور ادھر ادھر سے دباو آیا تو وہ اس کی تردید میں جٹ گئے مگر اب کہتے پائے جاتے ہیں کہ میں نے  تو پہلے ہی کہہ دیا تھا،آج کا منظر بھی قطعی مختلف نہیں ہے ،ہم ایک اور آئی ایم ایف پروگرام پر بات  چیت کر رہے ہیں اور  دوسری جانب سیاست میں ساری سنگ دلی کو آزمایا جا رہا ہے ،ایک نئے دھرنے کا اعلان  ہو چکا ہے ،2014ء میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا تھا ،ملک کو انرجی  کے مسلے کا سامنا تھا ،سی پیک شروع ہو رہا تھا اور ایک دھرنا اسلام آباد میں بیٹھا تھا،اس کے آرکٹیکٹ کی سیاست اس وقت بھی اپنے مفاد کے گرد گھوم رہی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ،وہ آئے روز پڑوسی بلک کے گن گاتے رہتے ہیں،کبھی اس کی سٹم کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی وہاں کی معیشت اور سیاست کو آئیڈل قرار دینے لگتے ہیں،  یہ جاننا چاہئے کہ وہاں ہم سے ملتے جلتے ایشوز موجود ہیں اور غربت بھی ہے مگر ان کی سیاست میں ایسا کوئی طرز عمل نہیں ہے جو یہاں اختیار کیا گیا ہے ،ایسے کوئی گھراو کرنے نہیں آتا ہے ،افسو س ہے کہ سیاست دان سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھ پاتے کہ اس طرح کی سیاست کے زمانے برسہا برس پہلے لد چکے ہیں،پرانی لکیریں پٹنے سے فائدے نہیں ہو گا بلکہ مذید نقصاان کا اندیشہ ہے،یہ ملک کا بھی ہے اورذاتی بھی ہو گا،پاکستان میں اب ہجوم کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے ہیں ،22کروڑ کی آبادی والے ملک میں اب جلسہ گاہ بھر لینا کوئی کارنامہ نہیں ہے ،افسوس ہے کہ اربوں روپے اس کار بے مقصد میںلفا دئے گئے ،سیدھی سی بات ہے کہ آئین میں درج طریقے کے مطابق 172ووٹوں سے گئے ،اور آئین ہی کے مطابق ایک نئی حکومت بنی،اب یہ اس  کا اختیار ہے کہ وہ ان مطالبات پر فیصلہ دے جو کئے جا رہے ہیں ،انتطار کرنا ہی  بہترین سیاسی رویہ ہو گا ، حکومت نے معروضی حالات دیکھنے ہیں ،جو مسائل ہیں یہ کسی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں ہیں ،اس کے لئے قومی مفاد پر یقین رکھنے والی حکومت ہی سخت فیصلہ کر سکتی  ہے  اور اس کی سیاسی قیمت چکانے پر آمادہ ہو سکتی ہے  ،اس لئے جو بھی حکومت میں ہیں ان کو اب ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا رویہ ترک کرنا چاہئے ،ملک کی خاطر اب ڈٹ جانا چاہئے ،  کیونکہ ملک سپریم ہے اور اب ایسے تماشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اسکو اب روکنا ضروری ہے اور ایک ایسے وقت میں جب ملک کو ڈیفالٹ جسیے سنگین خطرے کا سامنا ہے ،اور قطر میں ایک بہت اہم مذاکرات ہو رہے ہیںجن کی کامیابی کا تعلق ملک کے معاشی مستقبل سے ہے ،اس طرح نارکی پیدا کرنے کی صرف ایک وجہ نظرآتی ہے کہ دنیا کو کو کنفیوذ کیا جائے کہ وہ افراتفری کا شکار ہونے کا تاثر لے کر معاہدہ کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں ،اور ملک مزید مشکلات میں گھر جائے ،یہ سیاست ہے جس کی وجہ سے بیڑا غرق ہوا ہے ،آپ  بھی تو موجود رہے ،چار سال کسی نے  نہیں چھیڑا، جو کچھ ہوا وہ پارلمینٹ کے اندر ہوتا رہا ،اپوزیشن کی اکثریت جیل بھیجی گئی اس کے باوجود کسی غیر آئینی قدم کی حمائت نہیں کی گئی ،ایک دھرنا بھی آیا مگر اس  میں سٹریم سیاسی جماعتوں نے شرکت نہیں کی اور اسے  ختم کرنا پڑا ،اب اپ اس کیفیت سے دوچار ہیں ،دانش مندی سی کام لیں ،اس طرح سے ملنا کچھ نہیں ،سیاست ریورس میں جائے گی اور یقین کریں کہ  یہ ضرر شروع ہو چکا ہے ،حکومت کا چاہئے کہ وہ اب  آگے کی جانب دیکھنا شروع کرئے  اور گھبرانا نہیں ہے ۔ سیاست اور مرئشت پر تو بات ہوتی رہتی ہے ،اب ایک  جرنلسٹ سمٹ کا زکر ضروری جو مطفر آباد میں انڈس موٹرز کے زیر اہتمام ہوئی 19سے21مئی تک ہونے والی سمٹ میں دیگر صحافیوں کے ساتھ شرکت کا موقع ملا،تنویر ہاشمی ،ارشاد انصاری ،ریاض تھہیم،اسرار خان ،فیاض پراچہ ،مجیب الرحمان ،نوید بیگ،مظہر اقبال اور دیگر ساتھیوں سے سیکھنے کا موقع ملا ،انڈس موٹرز کے سی ای او علی اصغر جمالی نے اٹو سیکٹر سے منسلک مسائل اور ایشوز پر اپناموقف بھی دیا اور چبھتے سولات کو جواب بھی دیا ،یہ حساس ہوا کہ صحافی جنہیں ’خشک‘‘ کہا جاتا ہے  اتنے بذلہ سنج ہیں کہ انسان ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائے،اللہ تعالی سب کو سلامت رکھے ۔

ای پیپر دی نیشن