اسلام آباد (خصوصی رپورٹر + این این آئی) سپریم کورٹ میں پنجاب کے انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہا کہ دو صوبوں کے کروڑوں عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں۔ عوامی مفاد میں تو 90 روز میں انتخابات ہوئے نہیں ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن کمشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔ الیکشن کمشن کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی، تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں۔ الیکشن کمشن کے وکیل نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق نظر ثانی درخواست پر دلائل میں کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق کیلئے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟۔ وکیل الیکشن کمشن نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔ جس پر جسٹس منیب نے پوچھا کہ ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظرثانی کیس میں آپ کا مو¿قف ہے کہ دائرہ محدود نہیں، کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟۔ وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، عدالت کو نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل ہے 184 (3) میں نظرثانی کو اپیل کی طرح سماعت کی جائے؟ اس پر وکیل نے کہا بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں 184(3) میں نظرثانی دراصل اپیل ہی ہوتی ہے، 184(3) کے مقدمے میں نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کوکہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں تاہم ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسرنو سماعت کرنا ہوگی، آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ آئین میں دائرہ کار محدود بھی نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں، آئین نے آرٹیکل 184 (3) میں اپیل کا حق نہیں دیا، دائرہ اختیار بڑھانے کیلئے آئین میں واضح ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آپ کی دلیل مان لیں تو بہت پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ اس پر وکیل نے کہا کہ نظرثانی میں عدالت کو مکمل انصاف کیلئے آرٹیکل 187 کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے، عدالت کا تفصیلی فیصلہ آ جائے تو زیادہ آسان ہو جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت اس کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراض کرتی رہی ہے، کبھی فل کورٹ کبھی چار تین کا نکتہ اٹھایا گیا، جو باتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں؟ کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مو¿قف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیا مو¿قف تو اپیل میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے سماعت آج دن بارہ بجے تک ملتوی کردی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا ہے جس میں الیکشن کمشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی گئی۔ پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں، نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 روز میں انتخابات کیلئے ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔ صدر مملکت نے انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر 30 اپریل کی تاریخ کو کور کیا، 30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی، عدالت نے فیصلے میں 13 دن کی تاخیر کو کور کیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا جاچکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا، 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضا ہے۔ آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔ آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کیلئے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کیلئے مسترد کرچکی ہے۔
سپریم کورٹ