ڈاکٹر طاہر بھلر
نو مئی دو ہزار تئیس کا دن اس لحاظ سے خاص اہمئیت کا حامل رہے گا کہ اس دن ہمارے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عوامی لیول پر فوجی تنصیبات ،فوجی اداروں وعمارتوں پر گروپوں کی شکل میں عوام حملہ آور ہوئے نظر آئے۔ مختلف ویڈووز میں جو بعد ازاں دیکھنے کو ملیں ، اس میں کور کمانڈرہاوس لاہور، پشاور ریڈیو سٹیشن، میانوالی اور جی ایچ کیو میں جتھوں کی شکل میں لوگ آگ لگاتے ہوے ، فوجی ہیروز کے مجسمے گراتے ہوئے دیکھنے کو ملے۔ پاکستان پرپہلے سے کئی دہائیئوں سے قرضوں کی بھرمار، مخدوش مالی صورتحال اور دہشت گردی اور دھماکے عوام کو ہراس زدہ اور خوف و ہراس میں مبتلا کئے ہوے ہیں۔ ہر چند دنوں بعد کوئی انہونی واردات یا دہشت گردی کا واقعہ ضرور رونما ہو رہا ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فوج جو کسی ملک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک عرصہ سے فوج کسی نہ کسی شکل میں حکومت یا مارشلا کی شکل میں اقتدار میں رہی ہے اور یہ کسی بھی ملک کے دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے خلاف چاہے معمولی ہی غمو غصے کا اظہار بڑے دور رس اثرات کا حامل ہے۔ بیشک یہ چند جتھے شمار کئے جائیںلیکن اس سے پاکستان کے دفاع اور افواج کے بارے میں کوئی قابل رشک تصویر نظر نہیں آئی۔ بلوچستان میں حالات پہلے ہی مخدوش ہیں، فاٹا اور کے پی کے عرصہ سے دھماکوں اور دہشت گردی کے شکار ہیں ، سندھ بھی دولفقار علی بھٹو کی فوجی عامر کے ہاتھوں پھانسی، بے نظیر کے قتل کے بعد اگر زرداری پاکستان کپھے کا نعرہ نہ لگاتا ، تو آج خدا نخواستہ علیحدگی کے راستے پر تمام صوبوں سے آگے ہوتا ۔ رہ گیا تھا پنجاب جہاں فوج کی بنیاد بھی تھی اور سب سے زیادہ تعداد بھی اسی صوبے یا علاقے سے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں ، اس لئے پانجاب کے ان علاقوں میں اور بھی فوج کے خلاف مظاہروں کو طاقت سے عارضی طور پر دبایا جا سکتا ہے ۔ عوامی جذبات یا سوچ اتنی جلدتبدیل نہیں ہوتی ۔فوج کے پروردہ عمران خان ہی اپنی فوج کے خلاف ذہن سازی کرنے میں لگے تھے تو اس وقت انہیں روکنا ضروری تھا ۔ آج وہ بھی پی پی پی ، اے این پی، نون لیگ کے اینٹی ایسٹبلشمنٹ بیانیہ کے ساتھ مل گئے ہیں بلکہ اس سے کہیں آگے نکل چکے ہیں اور آج اینٹی امریکن بیانیہ سے عمران خان پیچھے ہٹ چکے ہیںبلکہ انہی امریکی سینٹرز سے مدد کی درخواستیں کر رہے ہیں ۔ فوج بھی امریکا سے مدد کی خواست گار ہے تو تما م سیاسی پارٹیاں لشمول پی ٹی آئی امریکا کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی نظر آ رہی ہیں۔جبکہ ہمارے ارد گرد چین ورلڈ پاور بن چکا ، انڈیا پاکستان سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں، ایران اور افغانستان اپنی نظریاتی حدود میں مضبوط و توانا نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ انڈیا جی ٹونٹی ممالک جو کہ دنیا کے سب سے معاشی ، ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ مالک شمار ہوتے ہیں کی مقبوضہ کشمیر میں کابنفرنس کروا کر اپنی بینالاقوامی پوزیشن کشمیر پرایک غاصب ملک ہونے کے باوجود منوانے میں کامیاب ہو چکا ہے جبکہ ایک طرف ہمیں ایف اے ٹی ایف ، آایم ایف ، ورلڈ بنک کی محتاجی کا سامنا ہے اور ایک طرف بقول عمران خان جب انڈیا سے حالت جنگ پیدا ہوئی، تو چنرل باجوہ کے باقول ہمارے پاس انڈیا سے لڑنے کے لئے تیل تک نہ تھا۔ہمیں یہ ماننا پڑے گا کے فوج کی ستر سالوں سے سیاست میں مداخلت غیر ضروری تھی اور عوام چاہے کسی بھی طبقے سے ہوں اب فوج کی سیاست میں مداخلت سے تنگ آ چکے ہیں اور مارشلاوئں سے بھی ۔ عوام سکون ، سہولتیں، امن چاہتے ہیں اور وہ کرپٹ سیاستدانوں سے بھی نالاں ہیں۔ لیکن فوجی ادوار میں تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم امریکی محکومی میں کچھ زیادہ سرعت سے گئے ہیں جس کی روشن مثال بقول جنرل ضیا ااااافغانستان میں امریکا کا ساتھ دیناامریکی کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے کے مترادف تھا۔یعنی انیس سو ستتر سے لے کر آج تک افغانستان میں پچاس سالوں میں ہم نے دہشت گردی کا شکار ہونے ، ہر ادارہ تباہ کرانے کے علاوہ کیا حاصل کیا۔ اس سے پہلے فوجی ڈیکٹیر ایوب خان نے امریکا کے دبائو میں آ کرسیٹو سینٹو میں جا ڈاخل ہوئے اور روس کے خلاف بڈھ بیٹھر میں کے ٹو جاسوسی جاہاز امریکا کی روس کے خلاف جاسوسی میںمدد کے لئے اڈے دئے اور اپنی خود مختاری کو چند ڈالروں کے عوض بیچ دیا۔ کسی سیاسی حکمران نے اس لئے امریکی آرڈرز نہ مانے کہ شائد انہیں پھر بھی عوام کی حمائیت کی شکل میں اعتماد حاصل تھابہ نسبت فوجی حکمرانوں کے جنہیںکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ نہ عوام پوچھ سکتے تھے نہ سیاست دان وہ صرف اور صرف امریکا تئیں اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے تھے اور اب آج کی کیفیئت ملاحظہ ہو تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ شہدا کے مجسموں ، تصویروں کو بھی آگ لگائی جا رہی ہے۔ اسی فوج کے لئے پینستھ کے جنگ میں اسی عوام نے دل وجان نچھاور کر دئے تھے ۔اب کیا ہوا کیا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے یا اس پر بھی ایک حمودرحمان کمیشن کی طرز پر ایک کمیشن اس کی دجوہات واضح کرے ۔ ساتھ ہی ایمانداری کے سرٹیفکئٹ والے حکمران عمران خان پر القادر ٹرسٹ کی تحقیق سے لے کر تمام لین دین کی تحقیق کرے کہ صاحب ثروت ہونے کے باوجود عمران خان نے اپنی جیب سے بھی اس قوم کوکیا دیا یا خدمات کو سیاسی مفادات کے لئے کیش کرانے میں مگن اپنی ناک سے آگے نہ دیکھا اور طاہرللقادری کے ساتھ مل کر سو دن سے زیادہ کا دھرنا دے کر اچھی بھلی چلتی جمہوری حکومت کو چلتا کیار تا کہ بعد ازاں میں وزیراعطم بننے کی گارنٹی لے کر تاریخ میں وزیراعظم کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھوا سکوں۔ ان تمام کرداروں کو کون ، کوئی کمیشن صفہہ قرطاس پر کبھی لائے گا۔