سیاسی عدم استحکام ہو تو معاشی استحکام کبھی نہیں آ سکتا۔ ملک کو آج ایسی ہی گھمبیر صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ہم مخاصمت کے ایسے موڑ پر آ گئے ہیں جہاں کوئی بھی سیاسی جماعت بات چیت اور کمپرومائز کے لیے تیار نہیں۔ فوج، جو کبھی متحارب سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر اکٹھا کر لیتی تھی، وہ بھی اب سیاسی معاملات سے دور اور لاتعلق نظر آتی ہے۔ صدرِ مملکت کا تعلق بھی چونکہ ایک سیاسی جماعت سے ہے اس لیے وہ بھی اپنا نیوٹرل کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خاں کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب اور رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بلوائیوں نے اہم اور حساس نوعیت کی تنصیبات کو نشانہ بنایا، توڑ پھوڑ کی اور متعدد کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہ افسوس ناک مناظر تمام ملک نے اپنے ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر دیکھے۔
حالات ابھی بھی قابو میں نہیں۔ عدلیہ جو لوگوں کی امیدوں کا آخری مرکز اور سہارا تھی وہ بھی اپنی حیثیت و اہمیت کھوتی نظر آ رہی ہے۔ محاذ آرائی کا گہرا سماں ہے جس نے مقتدر اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی حالات بگڑتے نظر آتے ہیں۔ امید تھی کہ آئی ایم ایف جب ’لون‘ جاری کرے گا تو اس سے بیرونی قسطوں کی ادائیگی میں توازن پیدا ہو گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھرے نظر آئیں گے جس سے ہماری امپورٹ، ایکسپورٹ کو فائدہ حاصل ہو گا۔ ہم تجارتی محاذ پر بہترین پرفارمنس کے ساتھ نظر آئیں گے جس سے ہماری معیشت سنبھلے گی اور ہمارے کاروبار کا پہیہ چلنے لگے گا مگر سیاسی ناخدائوں نے کچھ ایسا کر دکھایا کہ جس سے عام آدمی کا گزارہ اور جیون مشکل ہی نہیں، مشکل تر ہو گیا ہے۔
میں کسی بھی سیاسی جماعت کو ان تمام وجوہات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ سب کا ہی قصور ہے کہ انھوں نے ملکی معیشت سے زیادہ اپنے لیے سوچا اور ملکی مفاد کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ماضی کی طرف جائیں تو ہمیں ایسی باوقار شخصیات ملیں گی جنھوں نے شدید اختلاف رائے رکھنے والی متحارب سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور یوں وہ ملک میں ہم آہنگی و یک جہتی کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئے۔ اس حوالے سے ہم نوابزادہ نصراللہ خاں کو کبھی نہیں بھول سکتے وہ ایسی شخصیت تھے کہ جتنی بھی گھمبیر صورتِ حال ہو وہ سب کو اکٹھا کر لیتے تھے ۔ جو دوسروں سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا وہ بھی ایک چھت کے نیچے بات کرتا ہوا نظر آتا تھا جس سے ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا۔ بات چیت سے گھمبیر صورتِ حال ختم ہو جاتی۔
حالیہ مہینوں، ہفتوں اور دنوں میںہمیں جس سیاسی و معاشی بحران کا سامنا ہے اس نے عوام کا جینا مشکل کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور اور بے روزگار شخص جس طرح کی زندگی گزار رہا ہے اس پر تاسف کا ہی اظہار کیا جا سکتا ہے۔ جس ملک میں روزگار نہ مل رہا ہو، سیاسی و معاشی افراتفری ہو، وہاں کاروبارِ زندگی اور مملکت کے امور کیسے چل سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران میں اب وہ پہلے جیسا صبر ا ور تحمل و برداشت نہیں رہا۔ جو ان کے منشور سے بھی زیادہ ان کے لیے اہم اور ضروری ہے۔ خیبرپختونخوا کی ایک بڑی کاروباری شخصیت کا کہنا ہے ’پاکستان کے موجودہ معاشی حالات ہمیں اس موڑ پر لے آئے ہیں کہ جہاں سے ہماری واپسی مشکل ہے۔ان ابتر معاشی حالات نے ہر طبقے کو ہی متاثر کیا ہے اور موجودہ حالات تمام طبقات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔‘
لیکن کیا سیاستدان بھی یہ ماننے کو تیار ہیں کہ اس ساری افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ ایک طبقہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ان حالات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن بادی النظر میں وہ اس کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ معیشت کا پہیہ چلانا تو سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے جو حکومت میں آ جاتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے لیکن یہاں اپنی ذمہ داریوں کو کس نے سمجھا ہے۔ افسوس کہ ہم قوم نہیں رہے، ہجوم بن گئے ہیں۔ کوئی بھی اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے نبھانے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب کیا دھرا اسٹبلشمنٹ کا ہے۔ عدلیہ کی جانب بھی اب اشاروں کنایوں میں بات ہونے لگی ہے۔
ہمیں جو صورت حال درپیش ہے۔ اس نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے پاس اتنا زرمبادلہ نہیں کہ وہ اپنی درآمدات کو سہارا دے سکے۔ انڈسٹری بند ہونے سے جہاں سرمایہ کاری رک گئی ہے ، بزنس کو نقصان پہنچ رہا ہے وہاں بند ہونے والی انڈسٹری کے مالکان نے اپنی لیبر کو بھی فارغ کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہم لیبر کو کس طرح تنخواہیں دیں، چونکہ کام تو بند پڑا ہے، جیب سے تنخواہیں نہیں دی جا سکتیں۔ اس صورت حال کے باعث ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں مگر ہمارے سیاسی رہنمائوں کو قطعی اس کا احساس اور خیال نہیں۔ جب سے ملک میں احتجاج، ہنگامے اور بے یقینی کی صورت حال ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ سرمایہ رکھنے والے ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں۔ باہر مختلف پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، یہ صورت حال کسی طرح بھی لائق تحسین نہیں۔