سقوطِ جناح ہائوس اور سقوطِ زیارت

9 مئی کو لاہور کینٹ میں کورکمانڈر ہائوس کا گھر بلوائیوں نے خاکستر کر دیا ۔ یہ فسادی عناصر لبرٹی چوک سے جیل روڈ سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں اپنے ٹارگٹ پر پہنچے تھے۔ مال روڈ کے راستے حسان نیازی نے ہلہ بولا۔ گھر میں داخل ہونے والے پہلے چار شخص پشتو بول رہے تھے، اس کے بعد چار سو ہلڑ باز اور داخل ہوگئے۔ یہ جگہ صرف کور کمانڈر ہائوس ہی نہیں بلکہ یہ بانیِ پاکستان قائد اعظم کی ملکیتی جائیداد بھی ہے ۔اس گھر میں قائد اعظم کی نادر و نایاب یادیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردی گئیں ۔جناح ہائوس لاہور کی بربادی سے مجھے زیارت ریزیڈنسی کی خانماں بربادی یاد آگئی ۔جناح ہائوس لاہور کے بارے میں میرے پاس کوئی اور معلومات نہیں مگر سقوط زیارت کے سانحے پر میں نے ایک کالم لکھا تھا۔ سقوطِ جناح ہائوس اور سقوطِ زیارت ایک جیسے سانحے ہیں ،دونوں کی کہانی کسی قیامت سے کم نہیں ،میں سقوط زیارت پر لکھا ہوا کالم قارئین کی نذر کر رہا ہوں :
میں نے سقوطِ ڈھاکہ کا زخم برداشت کیا، تب سوچتاتھا کہ اتنی زندگی باقی نہیں رہ گئی کہ کوئی اور کاری زخم سہہ سکوں لیکن 15 جون کے ابتدائی لمحات میں میرے قائد کی یادوں کو بارود سے اڑا دیا گیا، میں اسے سقوطِ زیارت کے مترادف سمجھتا ہوں۔ میں یہ کالم سینے پر پتھر رکھ کر لکھ رہاہوں ، میرے قلم پر تقدیر نے سنگین تان رکھی ہے کہ لکھو۔ زیارت کے کھنڈر اور اس کی راکھ کا نوحہ لکھو۔ یہ ایک عمارت کی بات نہیں ، یہ بلوچستان میں قائد اعظم کی واحد نشانی ہے اور اس کا قصور یہ ہے کہ اس پر پاکستان کا پرچم لہراتا تھا ، وہ سارا سامان جو میرے قائد کی یادوں کا امین تھا، راکھ کا ڈھیر بن گیا، میری تاریخ کو بغداد کے حشر سے دوچار کر دیا گیا، غرناطہ اور قرطبہ کی طرح اسے یادوں کے صفحات سے کھرچ دیا گیا۔ عظیم قائد ہمارے درمیان نہیں تھے لیکن وہ دیواریں تو تھیں جوکان لگا کر قائد کے نحیف ہونٹوں کی لرزش کو سننے کے لیے بے تاب رہتی تھیں۔وہ بستر تو تھا جسے قائد کے لافانی جسم کو چھونے کا شرف حاصل ہواتھا اور وہ روح افزاجھونکے بھی اس کی راہداریوں میں اپنے مقدر پر ناز کرتے رقصاں رہتے تھے جو موذی مرض میں مبتلا قائد کو طاقت اور توانائی بخشتے رہے۔
خاک مدینہ و نجف کے بعد زیارت کی خاک قوم کی آنکھوںکا نور تھی،اس کی روح کو سرور بخشتی تھی۔ زیارت ایک علامت ہے، ہمارے اقتدار اعلیٰ کی، ہماری قومی خود مختاری کی، ہماری آزادی کے احساس کی۔ یہ علامت ہے ہمارے قائد کی اس بے مثل کشمکش کی جو رینگتی ہوئی یقینی موت کے ساتھ ان کے وجود میں برپا ہوئی۔بطل حریت کی زندگی کے آخری ایام یہاں بسر ہوئے۔محترمہ فاطمہ جناح نے زیارت کا ذکر نمناک آنکھوں سے کیا۔ اپنی کتاب ،میرے بھائی، میں انھوں نے لکھا:زیارت کی ریذیڈنسی جہاں ہم ٹھہرے، ایک پر فضامنظر،پرانی اور دو منزلہ عمارت تھی۔جو ایک بلند وبالا پہاڑی پر کسی مستعد چوکیدار کی طرح کھڑی تھی۔اس کے لان اور باغ وسیع ہیںجہاں پرندے ہر صبح نغمہ حمد گاتے،اور شام کو چہچہاتے،پھلدار درختوں کاایک جھنڈ،اور پھولوں کے تختے یہاںکے منظر کی خوبصورتی کو دوبالا کرتے۔قائد اعظم اس کی خاموشی اور دلکشی پر فریفتہ ہو گئے۔ بارود اور راکھ کی بو سے اٹی ہوئی زیارت ریذیڈنسی کی تاریخ گونگی نہیں،بہری نہیں، اسے یاد ہے کہ کس طرح کھانستے کھانستے ،قائد بے حال ہو جاتے تھے، اکیلی فاطی ان کی دلجوئی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی۔
زیارت ریذیڈنسی کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا کہ نرس نے قائد کا ٹمپریچر لیا ، قائد نے پوچھا ،کتنا ٹمپریچر ہے۔ نرس نے کہا کہ میں آپ کو نہیں ،صرف ڈاکٹر کو بتائوں گی ، قائد نے اصرار کیا کہ میں اپنا ٹمپریچر معلوم کرنا چاہتا ہوں، مجھے بتا ئو، نرس اپنے موقف پر ڈٹی رہی: میں صرف ڈاکٹر کو بتانے کی پابند ہوں ، آپ کو نہیں ، اور وہ کمرے سے چلی گئی توقائد نے فاطی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور تاریخ نے اسے اپنے صفحات پر نقش کر لیا:میں اس قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔ ایسے لوگ جو مصمم ارادہ کے مالک ہوں،اور جو خوفزدہ ہونے سے صاف انکار کر دیں۔ میرے قائد ! مجھے افسوس ہے ہم آپ کی یہ نصیحت بھول گئے، ہم اپنے ارادوں پر قائم نہ رہ سکے، ہم خوف زدہ ہو چکے۔ایک اقلیت کے سامنے ہم نے ہتھیار ڈال دیے۔
اچکزئی کی شہرت یہ ہے کہ وہ جمہوریت پرست ہیں، جس روز ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دے رکھا تھا، نوازشریف نے اپوزیشن رہنمائوں کا اجلاس جاتی امرامیں طلب کیا اور ایک دبنگ اعلامیہ جار ی ہوا، جناب اچکزئی کے لیے یہ اعلامیہ شاید کافی نہیں تھا۔ انھوں نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ میںجنرل کیانی سے بات کروں گا کہ ملک کے ساتھ کافی ہو گئی۔ رہی سہی بھڑاس انھوں نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نکال لی۔ اور پھران کے بھائی کوصوبے کا گورنر بنا دیا گیا، ایک بھائی ان کے ایم این اے بن چکے تھے، بہنوئی صوبائی اسمبلی کے رکن بن گئے اور دو رشتے دار خواتین کو انھوں نے صوبائی اسمبلی کی رکنیت بھی دلوا دی۔ یہ ہے جمہوریت کا چہرہ جس میں صرف ایک خاندان جھلکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو صوبائی قیادت سونپ دی گئی ، نون لیگ نے صوبے سے جان چھڑوا لی اور ڈھنڈورا یہ پیٹا گیا کہ اقتدار کی نہیں، اقدار کی سیاست کرتے ہیں۔
 میں حساب کتاب کا ماہر نہیں۔ نہیں بتا سکتا کہ فرزند زمین ڈاکٹر عبد المالک اور گورنر محمد خان اچکزئی کے اقتدار سنبھالنے کے کتنے گھنٹوں بعد قائداعظم کی زندگی کے آخری لمحات کی امانت دار زیارت ریذیڈنسی کو بارود اور آگ کے شعلوں کی نذرکیاگیا۔ دہشت گردوں کایہ پیغام مل چکا کہ قائداعظم کا پاکستان قبول نہیں۔ مجھے مشرف کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ وہ زمانہ لد گیا جب بلوچ سردار پہاڑوں پر چڑھ کر چھپ جاتے تھے، اب پاک فوج کے پاس وہ آلات ہیں جو پہاڑوں کی جھاڑیوں کے اندر جھانک سکتے ہیں۔کیا یہ آلات اسی طرح گونگے بہرے اور اندھے ہو گئے ہیں جس طرح ایبٹ آباد پر جارحیت کے دوران امریکا نے مغربی سرحد پر ہمارے راڈار سسٹم کو گونگا ، بہرہ اور اندھا کر دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم گیلانی نے شرم الشیخ کانفرنس میں من موہن سنگھ سے احتجاج کیا تھاکہ بلوچستان میں ان کاملک مداخلت کر رہا ہے، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے چند ماہ پیشتر بھارت کی سر زمین پر کھڑے ہو کر کہا کہ را کے ایجنٹو ں نے بلوچستان کو جہنم میں تبدیل کرر کھا ہے۔
مجھے دیکھنا ہے کہ ایم این اے محمو دخان اچکزئی، ان کے گورنر بننے والے بھائی محمد خان اچکزئی اور قوم پرست وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک لب کشائی کرتے ہیں تو کیا حقائق سامنے لاتے ہیں۔کیا وہ بھارت کا نام لیں گے جو سقوط ڈھاکہ کا مجرم تھا مگر میرے نزدیک وہی سقوط زیارت کا مجرم ہے۔ نئے وزیراعظم ، قائداعظم ثانی کو امریکا نے ڈرون حملوں کی سلامی دی اور بھارت نے زیارت کی راکھ کی سلامی دی۔ زیارت میں ایک بلڈنگ کونہیں، ایک نظریے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کیا قائداعظم ثانی پہلی فرصت میں قائداعظم کے مزار پر حاضری دیں گے اور قائد کے حضوریہ عہد کریں گے کہ وہ قائد کے ملک اور قائد کے نظریے کے لیے جان لڑا دیں گے ، کیا وہ مصطفی کما ل کی طرح قوم سے کہیں گے کہ میں تمھیں لڑنے کا نہیں ، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔ ہر پاکستانی کی جیب میں سو روپے کا نوٹ تو ضرور ہوتا ہے، میری اپیل ہے کہ آج ایک بار اس نوٹ کو دل کی آنکھوں سے ضرور چومیے ۔اس نوٹ کے ایک طرف زیارت ریذیڈنسی کی تصویر ہے جو مستقبل میں صرف اسی نوٹ پر ہی دیکھی جا سکے گی۔ پرندے یہاں ہر صبح نغمہ حمد گاتے تھے مگر وہاں ایک بلند پہاڑی پر( پاکستان کا) مستعد چوکیداراب نظر نہیں آئے گا۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن