ہم عموما اپنے اردگرد یہی دیکھتے ہیں کہ سکول جانے والے بچوں سے والدین اوّل پوزیشن ہی کے متقاضی نظر آتے ہیں اور اگر بچہ پہلی پوزیشن سے ذرا ڈگمگا جائے تو ٹیچر کے ساتھ بچہ بھی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔
اکثر واقعات میں زیادہ نمبر لانے کی خواہش مائوں کی ہوتی ہے۔ جو بچوں کے امتحانات سے کئی روز قبل ہی خود پر بھی ’امتحانی کیفیت‘ طاری کرلیتی ہیں اور پھر بچے کو گھنٹوں پڑھانا، کھیلنے کودنے پر پابندی لگانا، کہیں آنے جانے کی ممانعت، ڈانٹ ڈپٹ اور سختی معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔
ہر وقت بچے کے سامنے نمبروں کی باتیں کرنا، ان سے تقاضا کرنا، مطالبہ کرنا کہ اسے سب سے زیادہ نمبر لے کر پہلی پوزیشن ہی حاصل کرنا ہوگی۔ اس غیر معمولی دبائو سے بچے کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے صرف اس بچے کی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ یہ پوری صورتحال اس بچے سے جڑے لوگوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
ہمیشہ پہلی پوزیشن اور زیادہ نمبر لینے کی دوڑ ہمارے نونہالوں کی زندگیوں میں کتنی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں، اس کا ہم میں سے اکثر کو اندازہ ہی نہیں۔
ماہرین نفسیات برائے اطفال کاکہنا ہے کہ
ایسے بچے جن کی عمر 5 سے 12 سال ہوتی ہے، اگر ان پر پڑھائی کے دوران غیر معمولی دبائو اور پابندیاں لگائی جائیں تو ان کے مزاج میں سختی، طبیعت میں ضد، اکڑ اور چڑچڑا پن آجاتا ہے۔
سکول میں بچوں کے سامنے والدین کی جانب سے اکثر اوقات پوزیشن لینے اور زیادہ نمبر حاصل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، اس دوران والدین دیگر بچوں کا تذکرہ کرتے ہیں، اپنے بچوں سے ان کا موازنہ کرتے ہیں اور بعض اوقات ڈانٹ ڈپٹ کے دوران بچوں سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے فلاں بچے نے پہلے آپ سے کم نمبر لیے مگر اس بار زیادہ حاصل کرلیے، فلاںبچے کی لکھائی آپ سے اچھی ہے اور فلاں بچہ ہی ہر بار پوزیشن کیوں لیتا ہے، آپ کیوں نہیں لے سکتے؟بچوں کے ساتھ اس نوعیت کی بات چیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے ہم جماعتوں سے دْور ہوجاتے ہیں، ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں، ان میں شئیرنگ کرنے کی عادت نہیں پنپتی اور وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اسکول میں اپنے بچوں کی موجودگی میں ہی ٹیچر سے میٹنگ کے دوران جھگڑنے لگتے ہیں اور اپنے بچوں کے کم نمبروں کی وجہ سے اساتذہ سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال بچے کی نفسیات پر انتہائی منفی اثر ڈالتی ہے اور یوں ان حالات کا سامنا کرنے والے بچے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
ایسے بچے کم نمبر لینے کی صورت میں یا امتحان میں ناکام ہوجائیں تو اس کی ذمہ داری اپنے ٹیچر پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ مختلف کہانیاں گھڑنا شروع کردیتے ہیں، کبھی پیپر اچھا نہ ہو تو گھر آکر یہ کہنا کہ میرے پیٹ میں درد ہورہا تھا یا یہ بہانہ بنانا کہ مجھے فلاں بچہ پیپر دینے کے دوران تنگ کرتا رہا۔
ایسے بچے بڑے ہوکر فیصلہ ساز نہیں بن سکتے، ان میں بروقت فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی،وہ ناکام ہوں تو اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور ان کی کامیابی بھی دوسروں کی مرہون منت ہوتی ہے۔
ہم سب اپنی زندگیوں میں ہار جیت، شکست اور فتح کا مزہ چکھتے رہتے ہیں، زندگی چلنے، رکنے، گِر کر سنبھلنے اور چلتے رہنے کا ہی نام ہے۔ کامیابی حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے، شکست کے لیے کوئی میدان میں نہیں اترتا، جیتنا سب ہی چاہتے ہیں، لیکن اس جیت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ قواعد بنالیے جائیں تو بہت بہتر رہے گا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو جیتنے اور ہر میدان میں کامیاب ہونے کے بجائے انہیں صرف محنت کرنا سکھائیں، انہیں بتائیں کہ وہ نتائج کی فکر سے بے فکر ہوکر دل لگا کر پڑھیں اور محنت کریں۔اس کے علاوہ سکولوں میں ایسے تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہے جو بے چینی، مایوسی، غصہ اور عجیب رویہ رکھنے والے بچوں کی کائونسلنگ کرسکیں اور ان کے والدین کو بھی اس عمل میں شامل کریں۔