”دورانِ حیات وفات“

   آواز خلق

   فاطمہ ردا غوری
یہ ماجرہ غالباََ۸۵۰۲ کا ہے۔۔۔ حیات ناتواں میں حساسیت کا پہلو ہمیشہ سے ہی کچھ ذیادہ رہا تھا حلقہ احباب مختصر رہا اس میں بے حد مخصوص افراد شامل تھے لیکن جو تھے وہ ناگزیر تھے انکے ساتھ منسلک ہر بات سیدھا دل پر اثر کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ دل کا مریض ہو جانا بھی بر حق ٹھہرا گزشتہ چند دنوں سے فشار خون بھی مستقل بنیادوں پر اوج ثریا کو چھونے کے لئے بے تاب و مضطرب تھا سو دھیرے دھیرے طبیعت ذیادہ بگڑنے لگی جسم و دماغ میں بے چینی بڑھنے لگی ساری زندگی جس دل کو سمیٹے رکھا وہ بھی آپے سے باہر ہونے لگا بے قراری سی بے قراری تھی اسکے بعد ہوش نہ رہی آنکھ کھلی تو خود کو انتہائی نگہداشت میں پایاسامنے کئی جگر گوشے آنکھوں میں جگمگاتے ستارے لئے ڈاکٹر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے تبھی ڈاکٹر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے ” فی الحال یہ سن سکتی ہیں ، عین ممکن ہے کہ دیکھ سکیں یا محسوس کر سکیں لیکن کسی بھی قسم کا ریسپانس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں آپ لوگ دعا کیجئے کہ جلد اس کیفیت سے باہر آ جائیں “ یہ سننا تھا کہ سبھی کے پاﺅں تلے سے جیسے زمین سرک گئی سب سے بڑے بھائی لرکھڑاتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور زارو قطار رونے لگے ہمیشہ سے سننے میں یہی آتا تھا کہ اویس کو سب سے ذیادہ پیار فاطمہ سے ہے ویسے تو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سبھی کی لاڈلی تھی لیکن ہمیشہ بڑے بھائی کی محبت اور توجہ کا خاص طور پر مرکز رہی تھی سو اپنی پیاری بہن کے متعلق یہ سننا یقیناََ آسان نہیں تھا اور ان سے بردشت نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
منجھلے وقاص بھائی ہمیشہ سے خاموش طبع تھے ہم باقی بہن بھائیوں کی طرح نہیں تھے ہم چاروں آپس میں تمام جذبات و احساست ایکدوسرے کے ساتھ شئیر کر لیتے تھے لیکن انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار کبھی بھی کھل کر نہیں کیا تھاہاں البتہ دل میں ہم سب کے لئے بے پناہ محبت اور خلوص چھپا کر رکھا ہوا تھا اس بات سے ہم بخوبی آگاہ تھے اور ساری زندگی وقتاََ فوقتاََ اسکا ثبوت بھی خاموشی کے ساتھ ہی سہی ملتا رہا تھا دکھ ہو یا سکھ اظہار نہیں کر پاتے تھے کبھی کسی کے سامنے روتے بھی نہیں تھے سو آج بھی فوراََ آنسو چھپاتے ہوئے آئی سی یو سے باہر نکل گئے !!!
بھائیوں میں سب سے چھوٹے بھائی انس کا بچپن سے لے کر نوجوانی تک ہم بہنوں کے ساتھ ہی ذیادہ وقت گزراسو وہ بھائی کم دوست ذیادہ رہے ان کے ساتھ بے تکلفی بھی بڑے بھائیوں کی نسبت ذیادہ تھی وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ایسا کیا کریں اپنی دوست بہن کو فوری اس تکلیف سے نجات دلا سکیں تانے بانے جوڑ نہ پائے تو بے اختیاربڑے بھائی کے گلے لگ کر غم غلط کرنے لگے !!!
بڑی اور اکلوتی بہن بے یقینی کی سی کیفیت میں دور کونے میں بیٹھی تھی اور منہ ہی منہ میں بربڑا رہی تھی”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہمارا ساتھ ایسے نہیں ٹوٹ سکتا “دراصل اسکی اور میری شادی ایک ہی گھر میں ہوئی تھی ساری زندگی ایک ایک لمحے کا ساتھ رہا تھا ایک دوسرے کے ہمیشگی دوست اور رازدار تھے ”ساتھ یہیں تک تھا “ ایسے خیال سے بھی اسکی روح لرز رہی تھی !!!
تینوں بیٹیاں اپنے اپنے گھروں سے فوراََ آن پہنچی تھےں بڑی بیٹی خرد فاطمہ بالکل میری طرح اپنے بابا کی ڈھارس بندھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ دونوں چھوٹی بہنوں دانین اور خدیجہ کو دائیں بائیں کندھے سے لگائے تسلی دینے، چپ کراونے کی کوشش کر رہی تھی یہ الگ بات ہے کہ اسکی اپنی آواز بھی رندھی ہوئی تھی اور کپکپا ہٹ کا شکار تھی یہ حقیقت ہے کہ بیٹیاں چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں کیوں نہ ہو انہیں ماں کی ضرورت ہر دور میں رہتی ہے اور ماں کے دور چلے جانے کا خیال بھی انکی روح تک چھلنی کر دیتا ہے!!!
بیٹا بیرون ملک زیر تعلیم تھا اسے سات سمندر پار پریشانی میں مبتلا کرنا شاید درست معلوم نہیں ہوا ہوگا اسی لئے وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا 
سب سے دور ایک کونے میں کہیں نعیم صاحب دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے تھے ۔۔ تھکے تھکے لگ رہے تھے ۔۔۔ افسردگی سے چہرہ تھوڑے سے وقت میں مرجھا ساگیا تھا ہمیشہ کی طرح اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر رو رہے تھے ۔۔۔ میری اور انکی ہمیشہ بحث ہوا کرتی تھی کہ پریشان ہوں توشئےر کیا کریں دل ہلکا ہو جاتا ہے لیکن وہ بضد رہتے کہ تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔ جب بھی دکھی ہوتے کروٹ بدل کر چھپ چھپ کر رویا کرتے تھے آج بھی سب سے الگ تھلگ غم غلط کرنے میں مشغول تھے شریک حیات کے دور چلے جانے کا خوف انہیں متزلزل کر رہا تھا ایک با وفا ہمسفر جو ٹھہرے !!!
خیر کئی گھنٹوں تک سب روتے رہے اور دل کو سمجھاتے رہے کہ اللہ نے چاہا تو جلد سب ٹھیک ہو جائے گا اسکے بعد اصل کہانی کا آغاز ہوا جب ڈاکٹرز نے معذرت کرتے ہوئے دلاسہ دےنے کے بعد کہا کہ آپ لوگ پلیز رش کم کریں اور کوئی ایک اٹینڈنٹ مریض کے پاس رک جائے۔۔ رکنے پر بھی ہر کوئی بضد تھا نعیم صاحب نے سب کو سمجھایا کہ ان کا رکنا ضروری ہے کیونکہ وہ میری ہلکی سی جنبش یا سانسوں کے اتار چڑھاﺅ سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں اس بات سے سب کو اتفاق بھی تھا لیکن بڑے بھائی پھر بھی بضد رہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ بھی ہسپتال میں نعیم کے ساتھ ہی رکیں گے ۔۔۔
انکے محبت اور آنسوﺅں کے سامنے سب کو ہتھیار ڈالنے پڑے !
دن مہینوں میں بدلنے لگے تھے لیکن حالت میں کوئی سدھار نہ تھا فقط سانسیں چل رہی تھیں کئی محبت کرنے والوں کے اوراق میں سانسیں چلنے کے باوجود ہم مرحوم لکھے جا چکے تھے ہمارا ذکر اور عیادت روٹین کی صورت اختیار کرنے لگا باری باری آنے کے لئے وقت اور دن طے کئے جانے لگے تیمارداری ڈیوٹی کی صورت اختیار کرنے لگی تھی کس دن مجھے کون ملنے آئے گا اس حوالے سے دنوں کو افراد کے ساتھ منسلک کیا جانے لگا ۔۔ میں نے بھی چوری چوری یہ سارا شیڈول زبانی یاد کر کے دل میں چھپا رکھا تھا کہ کس دن کس پیارے کا انتظار کرنا ہے جتنا یہ سب میرے لئے قبل از وفات رو چکے تھے اب لگتا نہیں تھا کہ وفات کے وقت پتھر ہو چکیں آنکھوں میں ستاری ٹمٹما سکیں گے !!!
بیٹیاں بھی روز آتیں خرد آنسو چھپائے سر دباتی رہتی ، دانین ہمیشہ کی طرح گھنٹوں باتیں کرتی،خدیجہ اپنی حساس طبیعت کے سبب مجھے دیکھتی رہتی میرے گھٹنوں پہ سر ٹکائے نہ جانے کیا سوچتی رہتی ۔۔۔
ان کے سسرال میں مسائل پیدا ہونے لگے تھے ، ملازمت کے امور میں ماں کا پیار حارج ہونے لگا تھا ، اور انکے بچوں کے سکول کا حرج حد سے ذیادہ ہورہا تھا سو کچھ ماہ بعد دل پر پتھر رکھے آنسوﺅں کو دوپٹوں کے پلوﺅں سے پونچھتے ہوئے آتے رہنے کا وعدہ کر کے ، اور بابا سے اپنی صحت کا خیال رکھنے کا وعدہ لے کر بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں ۔۔۔۔
بھائیوں کے گھر ِ ، بیوی ، بچے اور دفاتر کے معمولات متاثر ہونے لگے تھے بڑے بھائی کی تو صحت بھی خاصی متاثر ہوئی تھی انکے بچوں نے بھی انہیں زبردستی بٹھا کر سمجھایا کہ اپنا خیال رکھیں گے تو پھپھو کا خیال رکھ پائیں گے اسلئے اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل اختیار کریں اپنے آپ کو مزید تکلیف مت دیں !
یاد آیا بیٹے کو جیسے ہی ان حالات سے آگاہی ہوئی تو وہ بھی ایمرجنسی کی حالت میں پاکستان پہنچا کئی دن میرے پاس بیٹھا رہا ۔۔ میرا ہاتھ پکڑ کر روتا رہتا ، نم آنکھوں سے دیکھتا رہتا لیکن اسکے فائنل امتحانات سر پر تھے اگر نہ دیتا کئی سال کی محنت ضائع ہو جاتی نعیم صاحب نے سمجھا یا کہ اسکا واپس جا کر امتحان دینا بے حد ضروری ہے یہاں وہ ہیں میرا خیال رکھنے کے لئے !
سو بیٹا دل کڑا کر کے بیرون ملک روانہ ہو گیا ہاںجاتے جاتے باپ سے وعدہ لے کر گیا کہ وہ میری طبیعت کے حوالے سے سچ سچ آگاہی دیتے رہیں گے اور اس سے کچھ نہیں چھپائیں گے ۔۔۔ 
بیٹا روانہ ہوا تو تقریباََ۸۳ سال قبل ایک استاد محترم ڈاکٹر شعیب احمد جو کہ اس زمانے کے بہت اچھے شاعر بھی ہوا کرتے تھے کا زمانہ طالبعلمی کے دوران پڑھا ہوا ایک شعر رہ رہ کر یاد آنے لگا 
       روز امید بندھی رہتی ہے مر جانے کی 
       روز دھڑکا سا لگا رہتا ہے بچ جانے کا
ایک ہی گھر میں رہنے والی بہن سے بھی بار بار مجھے اس حال میں دیکھنے کی تکلیف اب سہی نہ جاتی تھی بار بار گھر میں موجود میرے کمرے میں بیٹھ جایا کرتی پرانی تصاویرمیں ہر جگہ پر ہماری ایک ساتھ موجودگی کو دیکھ دیکھ کر ہلکان ہوتی رہتی اور ساتھ نہ ٹوٹنے کی گرگڑا کر دعائیں کرتی رہتی اس سے ذیادہ ایک بشر ناتواں کر بھی کیا سکتا ہے !
ایک صبح سورج طلوع ہوا تو ایک جانی پہچانی سی مہک محسوس ہوئی غور کیا تو ہماری واحد لا شریک جگری دوست نمرہ ذکاءہاتھ میں میرا ہاتھ تھامے کھڑی تھی اسکے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور میری ہتھیلیوں کو گرمائش پہنچا رہے تھے روتے روتے کانپتی آواز کے ساتھ وہ بے تکان بولتی جا رہی تھی وہ تمام واقعات دہرا رہی تھی جنہیں یاد کرتے ہوئے یونیورسٹی کے کاریڈور میں ہمارے بلند و بانگ قہقہے گونجا کرتے تھے لیکن آج ہماری ذات پر کوئی واقعہ بھی اثر انداز نہیں ہو پا رہا تھا کیا کرتی اسکی بھی زندگی کی کئی مجبوریاں تھیں چار وناچار چند گھنٹوں کی رفاقت ہمیں عنایت کر کے اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے آنسو چھپانے کی خاطر ایک برینڈڈ چشمہ نکالا اور اسے ناک پر ٹکاتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گئی اس طرح جیسے مزید رکنا اسکے لئے محال ہو رہا ہو ۔۔۔ اسے جاتا دیکھ کر تکلیف کا احساس اور شدید ہو گیا اور بے اختیار مرزا غالب کا کہا ہوا یاد آیا کہ 
      قید حیات اور بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں 
      موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں 
ایک دن ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آواز سنائی دی معلوم ہوا کہ چند اخبارات و جرائد کے مدیران عیادت کے لئے آئے تھے بہت مایوس لوٹے ہیں جن اخبارات میں کالم کے لئے صفحات اور جگہ مخصوص تھی وہاں اب کسی اور کا کالم شائع کیا جانے لگا ہے کیونکہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا اور امید بھی نظر نہ آتی تھی گویا ہم دوران حیات ہی تقریبا وفات پا چکے تھے!!!
ادبی بیٹھک لاہور اور دیگر کئی ادبی مقامات پر تقریبات کا انعقادکرووانے والی شخصیات بھی گاہے بگاہے ہسپتال آتی رہیں اور مایوس ہو کر کسی ایسی نئی آواز کی تلاش میں مصروف ہو گئیں جو انکے پروگراموں کی نظامت سنبھال سکے اور اپنی سحر انگیز آواز میں سننے والوں پر اسی طرح سحر طاری کر سکے
جس یونیورسٹی کے ساتھ کئی سالوں سے درس و تدریس کے حوالے سے منسلک تھی اس کے وی سی صاحب نے بھی عیادت کا شرف بخشا اور جاتے جاتے نعیم صاحب کو اداس چہرے کے ساتھ ایک لفافہ تھما دیا لفافے میں میری جگہ تعینات ہو جانے والے نئے استاد کے محکمانہ کاغذات تھے اور ساتھ یونیورسٹی میں دفتر کے باہر آویزاں میری وہ نیم پلیٹ تھی جسے اتارنے کے لئے میری باضابطہ وفات کا انتظار کر لینا بھی مناسب خیال نہیں کیا گیا تھا یعنی ہم دوران حیات تقریباََ سبھی کاغذات میں مرحوم ڈیکلئےر ہوتے جا رہے تھے !!!
نعیم صاحب کئی ماہ سے ہسپتال میں تھے گھر جاتے بھی تو کس کے لئے بیٹیاں خیر سے اپنے گھروں میں شاد آباد تھیں بیٹا بیرون ملک مقیم تھا سو یہیں کے ہو رہے کبھی رات رات بھر ہاتھ تھامے بیٹھے رہتے ، کبھی ماتھے پر کبھی بالوں میں انگلیاں پھیرتے زندگی کے شاداں و فرخندہ سفر کے خوشگوار لمحات یاد کرواتے کبھی کبھی تو انکی مسیحائی کی تاثیر روح تک اثر انداز ہونے لگتی محسوس ہوتا کہ ابھی بول پاﺅں گی حرکت کرنے میں کامیاب ہو جاﺅں گی لیکن کوشش بے سود جاتی مجھے مضطرب دیکھتے تو تھک سے جاتے ۔۔۔بے چین ہو جاتے اور رات کے کسی پہر نصیر الدین نصیر کا لکھا ہوا اپنا پسندیدہ کلام سنانے لگتے کہیں آواز رندھ جاتی اور کہیں فرط جذبات سے بلند ہونے لگتی 
  سنے کون قصہ درد دل میرا غمگسار چلا گی

جسے آشناﺅں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا 

جسے میں سناتا تھا درد دل وہ جو پوچھتا تھا غم دروں
       وہ گدا نواز بچھڑ گیا وہ عطا شعار چلا گیا 
کئی ماہ کی بے کاری ، بیزاری ، اضطراب نے بہت تھکا دیا تھا فراق گورکھپوری نے شاید میرے لئے ہی کہا تھا کہ 
    موت کا بھی علاج ہو شاید 
    زندگی کا کوئی علاج نہیں 
ایک رات جسم میں عجیب سے تسکین اترتی محسوس ہوئی کانوں میں خوشگوار سی سنسناہٹ محسوس ہوئی دیکھا تو امی جائے نماز بچھائے بیٹھی تھیں اور آیات پڑھ کر پھونک رہی تھیں ایسے وہ ہمیشہ کیا کرتی تھیں جب بھی ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی پریشان یا بے چین ہوتا تو وہ آیات پڑھ کر پھونکتی رہتیں تآنکہ سکون نہ آ جائے انکا یہ نسخہ ہمیشہ بلا کا کارآمد ثابت ہوا کرتا تھا جیسا کہ آج ہو رہا تھا تکلیف میں بھی مزہ سا آنے لگا محبت سے انکی جانب دیکھا تو اٹھ کر آ گئےں ماتھا چوم کر مسکرانے لگیں کئی ماہ کے بعد ایسی سکون کی نیند آئی کہ بیان مشکل ہے خواب میں دیکھتی ہوں کہ ابو آئے ہیں ہمیشہ کی طرح صاف ستھرے نفیس لباس میں وہی خوبصورت ہمیشگی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اطمینان ہوا کہ شاید مجھے لینے آئے ہیں لیکن وہ ہمیشہ کی طرف ہمت بندھانے لگے اپنی گرجدار آواز میں وہ مصرعہ سنانے لگے جو ہمیشہ سنایا کرتے تھے 
     جس حال میں جینا مشکل ہے اس حال میں جینا واجب ہے 
ساتھ ہی ساتھ تھپکی دے کر بہادر بنو ، بہادر بنو بارہا دہرانے لگے ۔۔۔ ایسا ہمیشہ اسی وقت کہتے تھے جب مجھے کسی نئے سفر کا آغاز کرنا ہوتا تھا اچانک چونک کر آنکھ کھل گئی ۔۔۔ وہ دن عام دنوں سے کچھ ہٹ کر تھا سورج کی روشنی بھی تھی اور ساتھ ہلکی ہلکی بارش بھی جاری تھی بارش کے انداز بتا رہے تھے کہ وہ رات گئے تک جاری رہنے والی ہے !!!یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اب داستاں ختم ہونے والی ہے جی چاہا کہ کاش اسوقت نعیم صاحب کو بلا کر وہی شعر سنا پاتی جو وہ اکثر مجھے تنگ کرنے کے لئے ہنس ہنس کر سنایا کرتے تھے  
       داستاں ختم ہونے والی ہے 
       تم میری آخری محبت ہو 
یہ سوچ ہی رہی تھی کہ انکی آواز سنائی دی فون پر کسی سے بات کر رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے کہہ رہے تھے کہ بس دعا کرو اللہ تعالی فاطمہ کو جلد از جلد اس تکلیف سے نجات دے دے اور مجھے بھی روز کے کرب سے نکال دے ۔۔۔بس اب برداشت نہیں ہوتا ۔۔ بہت تھک گےا ہوں ۔۔۔ 
میرا دل خون کے آنسو رونے لگا میں نے تمام عمر نعیم صاحب کو ایسے روتے اور کمزور پڑتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ لیکن آج وہ تھک چکے تھے ۔۔۔ ہمت ہار چکے تھے اور یہ دیکھنا میرے لئے موت سے کم نہیں تھا میں نے دل کی آواز سے اللہ کے حضور گرگڑا کر دعا مانگی کہ اے میرے مالک میں نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھ پاﺅں گی میں اس انسان کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا نہیں دیکھ سکتی اسے اس اذیت سے نکال دے ۔۔۔ 
نہ جانے کونسا لمحہ تھا کہ دعا فوراََ مستعجاب ٹھہری بہت سی زندگیاں جو کئی ماہ سے میری وجہ سے اذیت میں تھیں انکو بھی قرار آیا ۔۔۔ رحمان فارس نے کیا خوب کہا تھا کہ ۔۔۔
    کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی 
    کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے 
 
        

 
 
 

ای پیپر دی نیشن