السلام علیکم ورحمة اللہ

مروہ خان میرانی 
marwahkhan@hotmail.com

رب العزت نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور پہلی مرتبہ فرشتوں کے پاس بھیجا تو حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو "السلام علیکم" کہا اور جواب میں فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو "وعلیکم السلام" کہا۔ اللہ رب العزت نے سلام سکھایا اور مسمانوں کے لئے اس کو پسند فرمایا۔
مگر ہم مسلمان اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرنے کی بجائے انگریزوں کے بتائے ہوئے آدب "ہائے ہیلو" کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگوں کو گریٹ (Greet) کرنا ایک بہت اچھی عادت ہے مگر ایسی عادت کو روزنہ کی بنیاد پر اجر وثواب تو کیا اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں بھی شامل کروانے کا بعیص بنایا جا سکتا ہے۔ 
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
"خدا تعالیٰ سے بہت زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو سلام میں پہل کرتے ہیں"- (ابوداود)
عبداللہ بن سلام کہتے ہیں، نبی جب مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلی بات جو آپ نے فرمائی وہ یہ تھی:
"لوگوں! سلام عام کرو، کھانا کھلاو، صلہ رحمی کرو، اور رات کے وقت جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو. تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاو گے". (ترمذی 2485)
آپ اندازہ کیجئے نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں پہنچتے ساتھ جو پہلی حدیث فرمائی وہ سلام کو عام کرنے کی ہے۔ سلام کو عام کرنے سے کیا مراد ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا بہترین اسلام میں سلام کرنا بھی شامل ہے ہر مسلمان کو خواہ وہ اسے جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ اس حدیث کے پیچھے کیا حکمت ہو سکتی ہے کہ کسی نہ جاننے والے کو بھی سلام کیا جائے؟
یہاں پہ ایک بڑی عجیب و غریب تحقیق کا ذکر کروں WHOورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کے مطابق اجنبیوں کو گریٹ کرنے سے خوشی کا احساس ہوتا ہے دونوں گریٹ کہنے والے اور سننے والے کو۔ اردگرد کا ماحول خوش گوار ہوتا ہے۔ اور تنہا انسان جب باہر نکلتا ہے اور اسکو مختلف لوگ گریٹ کرتے ہیں تو اس شخص کو اطمینان و اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور تنہائی کا احساس کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ اکبر !
یہی بات ہمارے نبی ﷺ نے آج سے 1400 سال پہلے بتائی کہ معاشرے میں خوشی کا ماحول کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ جو کہ ہماری نااہلی کی وجہ سے مغرب کی قوموں نے تو اس پہ عمل کرنا شروع کر دیا لیکن مسلمان اس سے محروم ہو گئے
 نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
"میں تم کو ایسی بات بتاتا ہوں جس سے تم میں دوستی اور باہمی محبت بڑھ جائے گی آپس میں سلام علیک کی کثرت رکھا کرو۔ (مسلم)
سلام کرنے کا مطلب ہے کہ کہنے والا آپ کو دعا دے رہا ہے کہ آپ پر سلامتی ہو اور جواب دینے والا بھی دعا دیتا ہے کہ آپ پر بھی ہو اس طریقے سے اللہ سبحانہ و تعالی دعا قبول فرماتا ہے تو آپ کے اوپر سلامتی نازل ہوتی ہے شب و روز ، سبحان اللہ۔
" سلام علیک کو پھیلاو خدا تم کو سلامت رکھے گا"۔ حدیث 
مسکرا کر سلام کرنا بھی صدقہ ہے۔ حقیقتا اگر ہم چلتے پھرتے کسی اجنبی کو سلام کر دیں تو ہمارے معاشرے کا یہ عالم ہے کہ وہ شخص مڑ کے غور سے آپ کو تکتا رہتا ہے کیا یہ مجھے جانتا ہے جو اس نے مجھے سلام کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کو سمجھ لگتی ہے مجھے ہی سلام کیا گیا ہے یا وہ سلام کا جواب بھی نہیں دیتا یہ سوچ کے کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں اس کا جاننے والا نہیں ہوں۔ لیکن جہاں انٹرنیٹ کے بہت سارے منفی نتائج نکلے ہیں وہاں مثبت معاشرے میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ اکثر و بیشتر اب مسلمان جانے انجانے ایک دوسرے کو سلام کہنا شروع ہو گئے ہیں۔ الحمدللہ ہم سب کا تو یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ صبح کو اگر گھر والوں کو یا دوست احباب کو سلام کر دیا تو دوبارہ ہمیں سلام کرنے کی پورے دن توفیق نہیں ہوتی یہ سمجھ کے کہ ہم صبح کو اس حدیث پر عمل کر چکے ہیں۔ حالانکہ حضور کا اور اصحاب کرام کا یہ معمول ہوتا تھا، رسول اس قدر کثرت سے سلام علیک کرتے کہ اگر کبھی آپ کے ہمراہ ہی ایک درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور پھر سامنے آتے تو سلام علیک کرتے- (طبرانی)
مطلب یہ کہ آپ کے ساتھ چل رہے ہیں راستے میں کوئی درخت آگیا اور درخت کی وجہ سے ساتھی تقسیم ہو گئے کوئی دائیں سے نکلا کوئی بائیں سے درخت سے آگے نکل کر ملاقات ہوئی تو آپ سلام علیک کیا گویا اتنی سی جدائی کو سلام کے لیے نئی ملاقات شمار کر لیا جاتا تھا۔
ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کے سلام کیا آپ نے جواب دے دیا۔ دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ، سرکار نے فرمایا 20 نیکیاں ہوئیں، تیسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ، سرکار نے فرمایا یہ 30 نیکیاں ہوئیں"- (ابو داود)
یعنی کہ یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم دن میں سلام کر کے کتنی نیکیاں بٹورنا چاہتے ہیں 10، 20 یا 30۔ 
میری اکثر عادت ہے کہ مجھ سے کوئی بات چیت میں پہل کرے یا کوئی ایس ایم ایس آئے تو میں ضرور کوشش کرتی ہوں کہ میں سلام پہلے کر دوں بات چیت شروع کرنے سے پہلے۔ سلام کرنے کا مطلب اگلے بندے کو شرمندہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہونے اور حضور کی محبت کو ترجیح دینے کا اظہار ہوتا ہے۔
 لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا دل کرتا ہے کہ ہم سلام میں پہل کریں۔ پر ہمارے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے کسی دوسرے کو فوراً سلام کرنے میں۔ مگر اگر آپ کو اپنے پیارے نبی ﷺ سے محبت ہے تو اس محبت کے اظہار کرنے میں شرم و ہچکچاہٹ کیسی؟؟؟
سلام کے آداب ہیں میں شامل ہے۔ 
سواری پر سوار کو چاہیے کہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے چلنے والے کو چاہیے کہ بیٹھنے والے کو سلام کریں۔ جو پہلے سلام کرے گا وہی مرتبے میں افضل ہے۔ سلام کرنے کی ایک بہت بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ جب دو مومن ملتے ہیں اور سلام کے بعد ایک دوسرے کا مصافحہ کے لیے ہاتھ پکڑتے ہیں تو دونوں کی خطائیں ایسے جھڑ جاتی ہیں جیسے درخت کے پتے۔ (طبرانی)
حضور بچوں کو بھی سلام کیا کرتے تھے۔ عورتوں کے لئے حکم ہے کہ جہاں کہیں اسے فتنے کا خدشہ ہو وہاں سلام نہ کرے۔ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ صرف سلام بھی کہا جا سکتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کی والدہ حضرت آمنہ رضہ کی خادمہ حضرت ام ایمن رضہ جو کہ حضور کے لیے ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ پیچھے سے ان کا تعلق افریقہ سے تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان کی ادائیگی اور تلفظ میں بہت سے الفاظ میں مشکل پیش آتی تھی۔ کہ السلام علیکم کی ادائیگی میں بھی ان کا تلفظ اوپر نیچے ہو جاتا تھا تو آپ نے ان کو فرمایا "اماں آپ صرف سلام کہہ دیا کریں"۔ 
غیر مسلمان کو سلام نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی غیر مسلمان آپ کو السلام علیکم کر دے تو جواب میں صرف "علیکم" کہنا حدیث میں ثابت ہے۔
"سلام" اللہ سبحانہ و تعالی کا نام ہے اس نے یہ نام زمین والوں کو عطا کر دیا ہے اس نام کو جس قدر پھیلا سکتے ہو پھیلاو۔ 
اس خوبصورت حدیث کے بعد ہم سب کا دل چاہے گا کہ ہم اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے ہر وقت ایک دوسرے کو جاننے والوں کو اجنبیوں کو مسکرا کر سلام کیا کریں تاکہ ماحول میں خوشگواری کا احساس رہے۔ تاکہ اس سنت پر عمل کرتے کرتے ہم جنت کے دروازے پر پہنچ جائیں اور پھر ہمیں بھی یہ کہا جائے کہ "تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاو"۔ آمین یا رب العالمین

ای پیپر دی نیشن