ناروے، سپین اور آئرلینڈ نے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کر لیا۔ ان ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا سرکاری سطح پر اعلان 28 مئی کو ہوگا۔ ناروے، سپین اور آئرلینڈ کے اس فیصلے کے بعد اسرائیل نے احتجاجاً ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیا ہے۔ ادھر، پولینڈ نے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ غزہ کے لوگوں نے ناروے، سپین اور آئرلینڈ سے اظہار تشکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دیگر ملک بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کریں گے۔ دوسری جانب، ناروے نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کا اعلان کر دیا ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارٹھ ایڈی نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اگر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو ناروے دونوں کو گرفتار کر لے گا۔ اسی حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ممکنہ وارنٹ گرفتاری کا جواب دینے کے لیے ایوان نمائندگان کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیرعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو اس کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ اس سے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی معاہدہ تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ 7 اکتوبر سے اب تک غیر مسلم ممالک نے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف جس ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں کے عوام اور حکام میں انسانی حقوق کے بارے میں مسلم ممالک کے عوام اور حکمرانوں سے زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کی قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس معاملے میں اپنے سرد ردعمل سے وہ کیا ثابت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود کئی ممالک نے امریکا کے ایما پر اسرائیل کے دفاع کے لیے اقدامات کیے۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران واقعی اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں تو فلسطین کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھا کر اس کی خود مختاری کو محکم کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم کو مو¿ثر طور پر استعمال کر کے اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔