ریلیف تو ہے جاری ماہ میں پٹرول نرخ ”21 روپے“ فی لٹر کم ہونا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تاجر ۔ ٹرانسپورٹرز اِس ریلیف میں اپنا حصہ کِس طرح ڈالتے ہیں مثبت یا خاموش ۔ خیال ہے کہ ہمیشہ کی طرح خاموشی کا آپشن اختیار کیا جائے گا ۔ حکومت کا فیصلہ نافذ ۔ کمی کے تناسب سے مہنگائی میں کمی کا عمل اب متذکرہ بالا ہاتھوں میں ہے تبھی عوام کو حقیقی ریلیف ممکن ہے بقول شخصے کمی عارضی ہے اضافہ زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ عالمی منڈی میں نرخ لمحہ موجود میں ”83ڈالر“ فی بیرل سطح پر ہیں ہمیشہ اِس موسم میں نرخ (اگر کوئی عالمی فساد نہ ہو تو ) کم ہوتے ہیں کیونکہ پٹرولیم کی کھپت کے لحاظ سے جب یورپ ۔ بالخصوص امریکی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے تو قیمت اِس سے بھی کم سطح پر آ جاتی ہے یہ معاملہ عالمی منڈی کے ساتھ منسلک ہے جبکہ ”بجلی“ کا معاملہ کافی حد تک ہمارے اپنے اختیار میں ہے اِسی لیے اُس کی قیمت متواتر بڑھ رہی ہے۔ ”اللہ تعالیٰ “ نہ کرے کہ ایسا ہو مگر ”100روپے یونٹ“ کی خبریں ہیں ۔ عوام کو ناروا بوجھ سے محفوظ رکھنے کے لیے سینکڑوں تجاویز حکام بالا کو پہنچتی رہتی ہیں اگر حکومت چاہے تو قیمت بڑھانے کی بجائے اصلاحات کے ذریعہ سے پاکستان کے سب سے سنگین معاملہ ”توانائی سیکٹر“ کو سدھار سکتی ہے پاکستان کے پاس صرف قیمتی معدنیات ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہترین ۔ زرخیز دماغ بھی موجود ہیں ۔سب سے پہلا قدم افرادی قوت کی قیمتی ذہانت کو بروئے کار لانا ہے۔ پولیس اور روز مرہ زندگی کی لازمی سروسز کے اداروں کے علاوہ تمام سرکاری محکموں میں اتوار کے ساتھ ”ہفتہ“ کی تعطیل کا نفاذ کردیںجب تک معاشی بگاڑ دور نہیں ہو جاتااور معاملات درست سمت میں نہیں آجاتے ۔ یہ انتہائی معمولی قدم ٹرانسپورٹ ۔ بجلی ۔ گیس ۔ پانی ۔ خاطر تواضح فنڈ میں کروڑوں کی بچت کا باعث بنے گا۔ ”آئی ۔ ایم۔ ایف“ نے حکومتی اخراجات کم کرنے کا مطالبہ پھر سے دہرا دیا ہے میرا نہیں خیال کہ اگر مانیٹری فنڈ طے کرلے تو ہم کٹ نہیں لگا سکتے جب اُن کے مطالبات گیس ۔ بجلی ۔ ٹیکس بابت مسلسل منظوری پاتے ہیں تو پھر حکومتی اخراجات کے ضمن میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ شاید اسلئیے کہ نہ وہ سیریس ہیں ۔ کٹ لگوانے کے مطالبہ میں بلکہ عوام کی سہولیات میں کمی میں زیادہ سنجیدہ ہیں تبھی ہر دور میں بجلیاں عوام پر ہی گرتی رہی ہیں مگر اب حالات اتنے خراب ہیں کہ خود حکومت بھی بظاہر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش میں دکھائی دیتی ہے۔
”اخراجات میں کمی“
نجکاری ضرور کریں پر اپنے سرمایہ کاروں کو اولیت دی جائے اُن اداروں میں جو براہ راست عوامی فلاح پر اُستوار ہیں ۔ ”قومی اثاثوں “ کی 100 فیصد محفوظ بحالی اور بچت ممکن ہے اگر حکومت اپنی توجہ پاکستان میں پوشیدہ قیمتی ترین معدنیات ۔ قدرتی ذخائر کی دریافت پر کمر کس لے ۔ مزید براں سر پلس پولز ختم کر دے ۔ وزارتوں کے اُوپر بنائی گئی ”اتھا رٹیز“ ختم کر دیں جب وزارتوں میں سینکڑوں لوگ سر پلس ہیں تو مزید اتھارٹیز بنا کر قوم پر انتہا درجہ کا معاشی ظلم کیا گیا۔ بڑے بڑے محلات میں بھی شاندار تعلیمی ۔ معاشی مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں ۔ خسارہ کم نہیں ختم کرنا ممکن ہے اگر ”گورنر ہاو¿سز “سمیت میلوں پر محیط ضلعی محلات میں تعلیمی ۔ فنی ادارے قائم کر دیں ۔ رہائشی حصہ کو محدود کر دیں ختم نہ کریں۔ نیا بنانے کی آڑ میں قوم کا مزید نقصان ہوگا۔ اربوں روپے کی بچت کے ساتھ بے تحاشا آمدنی ہوگی۔” غیر ملکی یونیورسٹیز“ کے کیمپس قائم کیے جائیں ایک تو آمدنی دوگنا مزید براں جو ”پیسہ“ تعلیم کی مد میں ہمارا دوسرے ممالک میں خرچ ہوتا ہے وہ ہمارے اپنے وطن میں خرچ ہوگا تو بتائیے اِس فیصلہ میں ملک قوم کے کسقدر فوائد نظر آتے ہیں ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اولین توجہ” غیر ملکی تعلیمی درسگاہوں “کو پاکستان میں آنے پر راغب کرنا لازم کر لیں یقین رکھیں زر مبادلہ کی بچت ۔ معاشی ترقی ۔ غیر ملکی طلباءکی آمد ۔ اُس کے قیام و تعلیم کے معاشی فوائد ۔ سب سے بڑھ کر ملک کو بہترین ذہانت کے حامل افراد کی قیمتی کھیپ ہمیشہ میسر رہے گی ۔ کیا یہ چھوٹا قوم ہے ؟مزید زرعی زمین ختم کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اندرون و بیرون شہر ٹریفک مسائل کا حل ۔ ٹول پلازے ختم کر کے ”روڈ ٹیکس“ لگا دیں ۔ ایک تو راستوں کی بندش ۔ مشکلات ختم ہونگی دوسرے ٹریفک میں روانی رہے گی۔ حادثات ۔ گھنٹوں ٹریفک جام کے مسائل بھی از خود ختم ہو جائیں گے ۔
”عام آدمی پارٹی کا ماڈل“
ہر حکمران جب بھی کسی ملک میں جاتا ہے یا کوئی سربراہ ہمارے ہاں آتا ہے تو اُن ممالک کے ”ماڈلز“ کو مثالی ٹھہراتے ہوئے اپنانے کا اعلان تقریر کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ سب چھوڑ دیں صرف ”دلی“ میں ”عام آدمی پارٹی“ کا ماڈل دیکھ لیں ۔ وہی کافی ہے۔ نقشہ بدل دیا اُس ماڈل نے ”دلی“ کا ۔ ہم کیوں نہیں بدل سکتے ؟
”پنشن“
”پنشنرز “ کِسی بھی قسم کے ٹیکس ۔ کٹوتی کو قبول نہیں کرینگے ۔ کفالت ہے تو اُن کو ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ اکثریتی صورتوں میں پنشن یافتہ خاندان کے حالات بہت اچھے نہیں ہوتے۔ ایک ایسی مشق جو دہائیوں سے ہمارے سماج کا اٹوٹ حصہ بن گی ہے اُس میں کوئی بھی ناروا ترمیم یا ٹیکس کی نسبت زیادہ موزوں ۔ قابل عمل تجویز ہے کہ وفاق ۔ صوبوں میں بیک وقت برسر عمل ایک ہی نوعیت کے محکوں ۔ اداروں کو صوبوں کے حوالے کر دیا جائے اِس کا حکومت اعلان بھی کر چکی ہے۔ ”وفاق“ پر بڑے سائز کا معاشی بوجھ ہٹ جاتا ہے تو پھر ”مرے کو مزید مارنے“ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حکومت اب اپنا بوجھ نہ صرف کم کرے بلکہ ختم کرنے پر سنجیدگی دکھائے ۔ عوام بھی تو ہمارے ہیں تو پھر ہر مرتبہ قربانیاں قوم کیوں دے؟ حکومت اپنے اخراجات گھٹائے ۔ ٹیکس ہمیشہ قوم دیتی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے۔ تنخواہ ہمیشہ ٹیکس کاٹ کر دی جاتی ہے پھر ایک ہی طبقہ پر ہمیشہ مزید دباو¿ کی پالیسی عوام دوستی کا ثبوت نہیں ۔ عوام دوستی یہ ہے کہ سگریٹ ۔تمباکو ۔ درآمدی اشیاءپر ٹیکس چاہے (لگژری اشیاءجن کے بغیر با آسانی گزارہ ممکن ہے) سو گنا بڑھا دے کوئی چُوں نہیں کرے گا ۔ ملکی ساختہ اشیاءپر ٹیکس کی شرح کم کردیں ۔لوگ خودہی باہر سے سامان منگوانا بند کر دیں گے ۔ تاجر ۔ صنعت کار بھی اپنی ساختہ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام دوستی کا ثبوت دیں۔ عوام دوستی کے مظاہر سینکڑوں حوالے دینا ممکن ہیں پر صرف یہ اقدامات اُٹھا لیں تو ”اربوں روپے“ کی بچت کے ساتھ دوگنی آمدنی بھی یقینی ہے۔مقصد تو عوام کو ریلیف ہے۔ عوام دوستی اقدامات حکومت کے لازمی فرائض ہیں۔ آج کوئی اِدھر ہے کل عوام میں تو جب رہنا اکٹھے ہے ۔ ووٹ عوام سے لینا ہے سیاست عوام کے نام پر کرنی ہے تو پھر عوامی بہبود کے کاموں میں اخلاص کے ساتھ نیت ۔ ارادہ کا عمل اشد تقاضا ہے آئے دن بڑھتے مظاہرے ۔ ہرمسئلہ کا حل سڑکوں پر ایسی نوبت کیوں آتی ہے جب مسائل حکومت کے علم میں ہیں۔ قابل فخر معاشی ۔ سیاسی۔ سماجی ماہرین موجود ہیں تو پھر حل کیسے نا ممکن بنا دیا گیا ہے ؟؟ بیرونی فنانسنگ کی آمد چاہتے ہیں تو پہلے ملکی فضا ۔ ملکی سرمایہ کی منڈیوں ۔ مراکز کو امن ۔ اطمینان ۔ سکون کا ماحول فراہم کرنا پڑے گا۔ جب آنکھ ۔پیٹ شافی حد تک بھر جاتا ہے تو پھر امن ۔ معاش سبھی سدھار پر چل پڑتے ہیں۔ بس پیٹ اپنے ذرائع سے بھرنے کی تدابیر کریں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاءاللہ
عوامی منصوبوں میں ذاتی تشہیر کے فیصلہ پر وفاق ۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرا دی ۔ ”2023 “ میں سپریم کورٹ نے ترقیاتی منصوبوں پر ذاتی اشتہار بازی نہ کرنے کا ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا پر عمل در آمد نہیں ہوا۔ بیان حلفی طلب کرنے کا اقدام مستحسن ہے اب فیصلہ کا احترام ضروری ہے۔ بڑے پیمانے کی بچت ہوگی ۔ اشتہار ۔ ٹِکرز کچھ دن ۔ ہفتوں تک چلتے اور ختم ہو جاتے ہیں جبکہ دلوں پر نقش نام ۔ تصاویر تازیست چلتی ہیں۔ہر حکمران ۔ ہر وزیر کے اچھے کام یاد دہانی کرائے بغیر یاد رہتے ہیں۔ انسانی دماغ میں ریکارڈ ہو جاتے ہیں یہ وہ ریکارڈ ہوتا ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا جس کو کبھی”آگ“ نہیں لگتی کیونکہ فلاح انسانیت کے کام ہوتے ہیں مقصد تو عوام کو فوائد پہنچانا ہے۔ عوام کی زندگیوں کو آسان کرنا ہے تو پھر پائیدار حل کیوں نہ اپنائے جائیں ۔ بھکاری بنانے کی بجائے ملک گیر سطح پر معاشی ۔ عوام بہبود پروگرامز شروع کیے جائیں ۔ قوم کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کر دیں حکومت بھی اپنے پاو¿ں پر کھڑ ی ہوجائے گی۔