ادیب کو ذاتی مفادات اور پسند نا پسند سے ماورا ہو کر سیاسی ، سماجی اور علمی و ادبی ایشوز پر مکالمہ کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ایک ادیب طبقہ ہی ایسا ہوتا ہے جو ہر تعصب سے بالا تر ہو کر بات کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن بدقستی سے اس ادیب طبقے کو انتہائی پست اور مفاد پرست مصنوعی ادیبوں سے بدل دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے ادب اور ادیب کی عزت کو رواج دیا اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے اپنی مرضی اور پسند کے ادیب بنائے اور ان کو عہدوں اور اعزازات سے نوازا۔ ملک میں نہ صرف ادیبوں کی ایک سرکاری کلاس پیدا ہوگئی بلکہ حقیقی ادیب کو مار مکانے کا سلسلہ بھی پنپنے لگا۔
اس کے باوجود بھی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر حالات اتنے نہیں بگڑے تھے جتنے آج بگڑ چکے ہیں۔ اس صورتحال کی ابتدا ضیاءالحق کےدور میں ہوئی اور میاں محمد نوازشریف کے ادوار میں ارتقاءپذیر رہی۔ یہاں تک کہ شعر میں عریانی اور فحاشی کو اب سرکاری سطح پر اپروول حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ رونا اس بات کا ہے کہ احباب ِ بست و کشاد میں پہلے کچھ ایسے لوگ ضرور ہوا کرتے تھے جو غیر سماجی یا ملک دشمنی پر مبنی حرکات و سکنات پر چونک اٹھتے تھے اور کچھ نہ کچھ تدارک کی کوشش کرتے تھے لیکن اب تو ایسے لگتا ہے جیسے سارے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور مل کر معاشرے اور ملک کے ساتھ ظلم و زیادتی جاری رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ قریباً چند ماہ پہلے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی ایک فعال ادبی تنظیم تخئیل کی طرف سے منعقد کیے گئے قائداعظم ڈے پر میرا جانا ریاض ہوا جہاں میں نے پہلی دفعہ کسی مشاعرے کے ساتھ قائداعظم کے ویژن ، پاکستان کی صورتحال اور ہماری ذمہ داری کے موضوع پر ایک نہایت تعمیری اور فکری پروگرام دیکھا ، سنا اور اس میں شرکت بھی کی۔ میرے دل میں آیا کہ ایسے پروگرام تو ہمارے سفارتخانے کی چھتری تلے ہونے چاہئیں۔ میرے استفسار پر پتہ چلا کہ سفارتخانے کو دعوت دی گئی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ کوئی ایک نمائندہ پروگرام میں ضرور شرکت کرے لیکن سفارتخانے کی طرف سے درخور اعتناءنہیں سمجھا گیا۔ میں نے لاہور آ کر کالم لکھا کہ ہمیں سمندر پاربیٹھے پاکستانیوں سے صرف پیسے ہی نہیں منگوانے بلکہ ان کی قومی نظریاتی تربیت بھی جاری رکھنی ہے اور اس معاملے میں سفارتخانوں کو خود آگے بڑھ کر دلچسپی کا اظہار کرنا چاہیے۔
مجھے لگتا ہے شاید میری استدعا پر غور کرتے ہوئے سعودی عرب ریاض میں موجود ہمارے سفارتخانے کی عمارت میں ایک ایسا عید ملن مشاعرہ منعقد کیا گیا ہے جس میں پاکستان سے ایک ایسے شاعر کو بلایا گیا تھا جو مخرب اخلاق شاعری کی وجہ سے بدنام ہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ہے جبکہ کینیڈاسے ایک ایسے پاکستانی شاعر کو مدعو کیا گیا تھا جو ایک انڈین فنڈڈ یوٹیوب چینل پر بیٹھ کے کہتا ہے کہ پاکستان میں شعر و ادب ختم ہوگیا ہے اور اب یہ صرف انڈیا میں ہی پھل پھول رہا ہے۔
کسی نے غور نہیں کیا ہمارے ہاں دیگر سوشل علتوں کی طرح مخرب الاخلاق شاعری کا ٹرینڈ بھی بھارت سے ہی بھیجا گیا ہے جس طرح پہلے ٹی وی پروگرام بھیجے گئے۔ یہ بات تو خود بھارتی لیڈر اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی میدان میں خاک چٹوا دی ہے۔ لہٰذا میرے لیے یہ بات چونکا دینے والی تھی کہ شاعری میں لڑکیوں کو جینز پہننے کا مشورہ دینے والا شاعر اور انڈین فنڈڈ پروگرام میں بیٹھ کر پاکستان کے بارے میں غلط بیانی کرنے والا اور انڈیا کے بارے رطب اللسان ہونے والا شاعر اکٹھے ہوں اور وہ بھی پاکستانی سفارتخانے میں۔ ادھر پاکستان میں بھی بار بار بھارت جانے والے ایک شاعر کو نہ صرف لاہور کے ایک ادبی ادارے کا سربراہ بنا دیا گیا بلکہ اس کے دوست سرکاری افسران کی مدد سے پاکستان بھر کے ادبی و ثقافتی اداروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
اس سارے معاملے میں انتہائی تکلیف دہ ہے کہ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ جس ریاست میں عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کو نشانے پہ رکھ لیا گیا ہو وہاں بیچارے ادب و ثقافت کو کون پوچھتا ہے۔ اسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج دشمن عناصر اندر ہی اندر ہمارے ملک اور معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹتے جا رہے ہیں۔
پہلے کم ازکم بیوروکریسی ان تمام امور کو دیکھتی تھی اب المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکمران آتا ہے اس کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایسے عمال کی تقرریاں کرے جو اس کو اس کی مرضی سے حکومت چلانے میں مدد دے۔ پھر جو افسران وہ لے کے آتا ہے ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ریاستی امور کو پس پشت ڈال کر جی حضوری میں نوکری پوری کرے اور پھر مزید ستم یہ کہ بیوروکریٹس کے بعد اب ڈپلومیٹس بھی گئے۔