افسوسناک سانحہ

May 24, 2024

رابعہ رحمن

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے وزیر خارجہ، چار اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میںاندوہناک وفات یقیناً بہت افسوسناک واقعہ ہے۔ نہ صرف ایران کے شہریوںکےلئے بلکہ امت مسلمہ کےلئے بھی ہے۔
 ابراہیم رئیسی ایران کے منتخب صدر تھے ان کا عہدہ صدارت بدقسمتی سے زیادہ عرصے پہ محیط نہیں رہا لیکن جتنی دیر بھی وہ صدر رہے انہوں نے ایران کے عوام کی نمائندگی بہترین طریقے سے کی۔ بہت اہم مواقعوں پہ چاہے وہ اقوام متحدہ کی اسمبلی سے خطاب ہویا OICمیں شرکت کے دوران خطاب ،جناب ابراہیم رئیسی نے ہمیشہ ایران اورامت مسلمہ کی ترجمانی کی۔ امت مسلمہ کی ترجمانی کی ان کی اچانک حادثاتی وفات سے ایران کےلئے بالخصوص اور عالم اسلام میںبالعموم ایسا خلا پیدا ہواہے جسے مکمل ہونے میں وقت لگے گا، ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی کیا اس دوران پاکستان اور ایران میں مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے، یادداشتوں پہ دستخط ہوئے، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ ہماری فوجی قیادت سے بھی ان کی ملاقات ہوئی اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لاہور اور کراچی بھی گئے اور جہاں پہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی ملے جس سے ایران اور پاکستان کے گہرے تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے دورے کو صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں رکھا اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور ایران کے دیرینہ برادرانہ اور اسلامی ممالک میں ہونے کی حیثیت سے گہرے اورروابط تاریخی روابط ہیں۔ پاکستان کا ایران سے ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے، جو ساری دنیا کو پتہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے میں جب سے پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میںآیا تو دونوں ممالک کے تعلقات بہت قریبی رہے ہیں۔80کی دہائی میں ایران اور عراق کی بلاجواز طویل جنگ سے پورا عالمِ اسلام پریشان تھا تو اس دوران بھی پاکستان نے مصالحت کا اہم کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کے درمیان جنگ بندی کروائی۔ جس کے ایران کی عوام اور حکومت بھی معترف رہی ہے۔ اس سال کے فروری میں ایران کی طرف سے پاکستان کے علاقے بلوچستان میں میزائل داغے گئے جس کے نتیجے میں کوئی بڑا نقصان تونہیں ہوا مگر یقیناً دونوں ممالک میں ایک وقتی کشیدگی پیدا ہوئی کیونکہ اس کے دو روز بعد پاکستان نے بھی جوابی طور پر ایران کے علاقے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا وہاںکچھ ایسے لوگ مارے گئے جو پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوںمیں ملوث تھے۔پاکستان نے واضح کیا تھاکہ پاکستان کا یہ حملہ ایران یا ایران کی عوام کے خلاف نہیں تھا بلکہ ان کے خلاف تھا جو پاکستان کے خلاف حملوںمیں ایران کی سرزمین کو استعمال کرتے ہیں۔ اس میں خوش آئین بات یہ ہے کہ دونوںممالک نے صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اعلیٰ ترین سطح پر فوری طور یہ روابط بحال کئے، پاکستان اور ایران کے وزیرخارجہ کی آپس میں بات چیت ہوئی اعلیٰ وفود کا تبادلہ بھی ہوا، جس کی وجہ سے کشیدگی کی صورتحال چند ہی دنوںمیں ختم ہوگئی جو اس بات کی عکاس ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت قریبی روابط ہیں، وگرنہ ایسی صورتحال میں کشیدگی طوالت اختیارکرلیتی ہے کم نہیں ہوتی۔ اسلامی ممالک کا آپس میں یوں گٹھ جوڑ سب کےلئے ایک مثال بن گیا، اس کے بعد ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ بھی کیا اور اس دوستی پہ اعتماد کی مُہرثبت کردی۔
پاکستان اور ایران کے آپس کے تعلقات کے علاوہ ایران کے دنیا کے ساتھ بھی تعلقات اتار چڑھاﺅ کا شکاررہے ہیں خاص طورپر1979ءکے انقلابِ ایران کے بعد سے چاہے وہ ایران کا جوہری پروگرام ہو یا ایران کی سعودی عریبیہ کے ساتھ کشیدگی ہویا دنیا کے مختلف ممالک میں ایران کی طرف سے دنیا کی مختلف تنظیموںمیںمدد کا معاملہ ہو، چاہے وہ حزب اللہ ہوںیا شام میں جو جنگ جاری رہی ہے اس میں ایران کا کردار ہو اس پہ مغربی ممالک اور بعض اسلامی ممالک کو بھی اعتراضات رہے ہیں۔مگر ایران کا اس میں اپنا ایک موقف رہاہے اور ایران کی خلیج کے ممالک اور سعودی عرب کے ساتھ جو کشیدگی رہی ہے اس کا اس ملت اسلامیہ کو نقصان ہی ہوا ہے مگر ایران اور سعودی عرب کی اسلامی قیادت کی بردباری کی بدولت گزشتہ سالوںمیں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، جس پر ہرمسلمان نے ایران اور سعودیہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ہر ملک نے بالخصوص OICکے ممالک نے بھی سکھ کا سانس لیاہے جس سے خطے کی بھی صورتحال بہتر ہوئی ہے، ایران کا اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پہ ہمیشہ اصولی موقف رہاہے اور وہ موقف پاکستان کے موقف کے بہت قریب ہے کہ اسرائیل کو تمام مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کو خالی کرنا چاہیے، فلسطین آزاد ریاست بننی چاہیے۔ فلسطین کے عوام کو ان کا حق ملنا چاہیے وہ حق جو کہ اقوام متحدہ نے خود سیکورٹی کونسل میں قرار دادوں کے ذریعے اورجنرل اسمبلی میں بار بار کی قراردادوں کے ذریعے ان کو دیاہے، اس وقت غزہ میں جوظلم ہو رہاہے بے گناہ فلسطینی عورتیں اور بچے قتل کئے جارہے ہیں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے ذریعے انسانیت کا بیہمانہ قتل اور ظلم جاری ہے، اس میں ایران کاموقف بہت واضح ہے کہ ایران نے ہر سطح پہ اس اندوہناک وحشیانہ عمل کے خلاف آواز اٹھائی بھی ہے اور مذمت بھی کی ہے جس کی وجہ سے ایران اور اسرائیل کی کشیدگی بھی دیکھنے میں آرہی ہے اسی کشیدگی کی ایک کڑی دوماہ پہلے دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیل کی طرف سے بلاجواز بیہمانہ کارروائی کے ذریعے ایران کے اعلیٰ فوجی افسران کو نشانہ بنایاگیا، جس کی کوئی بھی توجیح قابل قبول نہیں ہے نہ ہی قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کیونکہ سفارتکاروں کو بین الاقوامی سطح پہ سیکورٹی اور تحفظ حاصل ہوتاہے اس معاملے پر ایران نے تحمل کامظاہرہ کیا جس کی وجہ سے یہ تنازعہ آگے نہیں بڑھا۔وہ ایران کی عوام میں مقبول رہنما تصورکئے جاتے تھے انکی اچانک یوں وفات پہ امن پسند سوچ رکھنے والوںکو شدید ذہنی دھچکالگاہے۔

مزیدخبریں