امریکہ میں پڑھانے کا میرا تجربہ

ایک کامیاب معلم اپنے لیکچر کو کامیاب اور موثر بنانے کیلئے اپنا انداز بیاں دلچسپ رکھتا ہے۔اسے اپنے سامنے طلباءکے آئی کیو لیول کا علم بھی ہوتاہے۔ آئی کیو ٹیسٹ تخلیق کرنے والے سر فرانسیس گالٹن ( Galton Francis) تھے۔ انہوں نے یہ ٹیسٹ عقلی صلاحیت کی پیمائش کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ ٹیسٹ بعد میں مختلف صورتوں میں ترتیب دیا گیا۔آئی کیو ٹیسٹ (IQ Test)فرد کی عقلی صلاحیت کو ناپتا ہے۔ یہ مختلف زمرے میں شامل سوالات پوچھ کر فرد کی منطقی سوچ، حساب، اور میموری وغیرہ کو جانچتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے نتائج کو فرد کے انٹیلی جنس (IQ) کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، جو عموماً ایک اوسط کے بلند یا کم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد عام طور پر فرد کی عقلی صلاحیت کو جانچنا ہوتا ہے، جیسا کہ تعلیمی منصوبوں میں داخلے کے لئے،موزوں منصب کیلئے منتخب کرنا یا مواقع کی تلاش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
معاف کیجئے بات دور نکل گئی اصل میں میں ذکر کررہاتھا کہ میں ان دنوں میں لرننگ چارٹر کمیونٹی سکول نیو جرسی امریکہ میں آن لائن ریاضی پڑھا تا ہوں اب چونکہ امریکی اور پاکستانی سکولوں کے نصاب میں کئی فرق ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ عوامل ہیں جو آپ کے ساتھ شئر کرونگا۔ امریکی سکولوں میں عموماً مواد کا بہت وسیع انتخاب ہوتا ہے، جس میں علوم ادب، ریاضیات، لسانیات، سوشل سٹڈی فنون اور دیگر شعبے شامل ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی سکولوں میں عموماً مواد کا انتخاب اس نسبت سے کم ہوتا ہے اور زیادہ تکنیکی شعبے جیسے علوم سائنس یا آرٹس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔جبکہ امریکی سکولوں میں عموماً طلبا  کو سوچنے، تجزیہ کرنے، اور خود کو سرگرم رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے، جبکہ پاکستانی سکولوں میں عموماً رٹ میمورائیزیشن اور نصابی کتابیں یاد کروانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔اسی طرح گوروں کے سکولوں میں عموماً طلباءکی پیدائشی صلاحیتوں، تجزیاتی صلاحیتوں اورجذباتی ذہانت، سماجی ہنر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اکثر والدین کی مرضی کے مطابق مضامین منتخب کروائے جاتے ہیں کہ بیٹاڈاکٹر یا انجینئر بن جائے جس میں بچے کی پیدائشی صلاحیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اساتذہ عموماً اندازہ گیری سے نصاب کی بنا پر امتحانات لیتے ہیں۔ہمارے سکولوں میں عملی سائنس اورپریکٹیکل پر کم توجہ دی جاتی ہے اسی لیے ملک میں نئی ایجادات کی کمی ہوتی ہے۔ امریکی سکولوں میں عموماً انفرادی یا گروہی کام، تجرباتی مطالعے، مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر تدریس کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تدریس کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہوتا ہے اور زیادہ تر روایتی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔وہاں آباد تمام اقوام مادر زاد انگریزی نہیں بولتے ان کیلئے ELL انگلش لینگویج لرنرز،پروگرام کا بندوبست کیا جاتاہے تاکہ ان کی زبانی مہارتیں بہتر ہوں۔وہاں طلباءکو خود فہمی، اخلاقیات، اور ترویجی اقدار کے حوالے سے تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور سپورٹس کو لازمی جزو سمجھتے ہیں اور ایک فریڈ کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوتاہے۔ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی سالانہ فیس پچیس ہزار سے تیس ہزار ڈالر ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم سستی اور نان فارمل تعلیمی نظام تو اور بھی آسان ہے اور یہاں دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
ایک اور بات کا اضافہ کروں کہ یہاں کے طلباءکے دلوں میں استاد کے ساتھ دلی الفت اور احترام ہوتا ہے، طلباءو طالبات فرمانبردار ہوتے ہیں۔ وہاں ایک کلاس میں طلباءو طالبات کی زیادہ سے زیادہ تعداد بیس ہوتی ہے لیکن یہاں تو آپ کو علم ہے تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ امریکن طلباءکے کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے ان کی ہاتھ کی لکھائی بہت کمزور ہوتی ہے لیکن یہاں طلباءکی لکھائی ان کی نسب بہت اچھی ہوتی ہے یہی واضح فرق ہے۔ایک مرتبہ ان کے کو رس میں اتفاقاً یہ سوال دیکھ کر میں تو بڑا ششدر رہ گیا کہ امریکی جھنڈے میں کل کتنے لکیرے ہیں؟ جواب میں لکھا تھا کہ کل تیرہ لکیرے ہیں جو ان کی تیرہ کالونیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ لکیرے تیرہ ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو برطانوی راج سے آزاد ہو کر امریکہ کی ریاستیں بنیں۔ ان کو شروع میں حب الوطنی کا درس دیا جاتا ہے۔ شاید آج ان کی دنیا پر حکمرانی کا راز یہی ہے۔ارے ہے کوئی استاد محترم جو میرے وطن عزیز کے سبز ہلالی پرچم کے بارے میں بھی طلباءوطالبات کو ایسی تاریخ اوروضاحت سے پڑھائے؟۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...