پروفیسر طاھر عبدالرزاق
پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا یھاں سب سے زیادہ منظم تحریکات مذہبی جماعتوں نے چلائیں ایسی تحریکات کی قیادت نامور علماء اور قداور مذھبی شخصیات نے کیں جو ایسی تحریکوں میں عوامی جذبے کو نہ صرف زندہ کرتے تھے بلکہ مکمل کنٹرول بھی کرتے تھے انھی شخصیات میں ایک نام مجاھد اسلام وختم نبوت حضرت مولانا محمد اجمل خان کا تھا جو یقینی عوام کے دلوں پر راج کرنے والے تھے اور اس سے بھی کر ھر مکتبہ فکر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
جمعیت علماء اسلام کے سابق مر کزی امیر وسرپرست اعلی حضرت مولانا محمد اجمل خان ? جید عالم دین عظیم علمی روحانی شخصیت نڈر بے باک خطیب نے قیام پاکستان کے بعد چلنے والی دینی وسیاسی تحریکات میں صف اول کے راہنماء، میدان خطابت میں لوگوں کو توحید وسنت کی دعوت دینے والے، عالم باعمل اکابرین کے مشن کے وارث، گذشتہ صدی کے اکابرین کی نشانیوں میں سے ایک قابل فخر مثال تھے، آپ علم وعمل زہدوتقوی اخلاص وللہیت کے پیکر تھے،آپ اہل حق کی جیتی جاگتی تصویر تھے،رب کائنات نے آپ کو مقبولیت سے خوب نوازا ہوا تھا آپ ان عظیم اور خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنھیں دیکھ کر خدا یاد آئے،خطیب اسلام کی محفل میں بیٹھ کر ہر انسان کو روحانی اور علمی سکون محسوس ہو تا تھا۔ آپ بیک وقت عالم بھی تھے اور معلم بھی،محقق بھی تھے اور مصنف بھی،فقیہ نکتہ رس بھی تھے اورواعظ شیریں بیان بھی تھے،اور خطیب شعلہ بیان بھی، عابد شب زندہ دار بھی تھے اور سالک عبادت گزار بھی،کشور قلم کے شہسوار بھی تھے اور سیاست کے سرخیل ومدبر بھی،ولی وقت بھی تھے اور امت کا سر ما یہ بھی۔نصف صدی سے زائد عرصہ ہر میدان میں دین کی خدمت کی اور امت کی راہ نمائی کی لیکن جس میدان میں پہچان بن کر ابھرے اور چاندبن کر چمکے وہ خطابت اور سیاست کا میدان تھا دنیا جانتی ہے سب سے مشکل یہ دونوں میدان ہو تے ہیں لیکن حضرت مولانا محمد اجمل خان نے اس میدان میں وہ کارنامے سر انجام دئیے کہ تاریخ بلا شبہ ان پر فخر کرتی ہے۔
اس کامیابی کے پیچھے عمل کا ہاتھ تھا حضرت خطیب اسلام بھی اسی قافلہ حق کے شہسوار تھے آپ کے بیانات اور زندگی میں کوئی تضاد بیانی نہ تھی آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی ایک کھلی کتا ب کی طرح تھی جو صفحہ بھی الٹیے وہ پہلے صفحے سے زیادہ شفاف اور چمک دار نظر آتا تھا۔
ملک میں چلنے والی دینی تحریکات میں جمعیت کے اکابرین نے دیگر جماعتوں کے اکابرین کے ساتھ بنیادی اور اہم کردار ادا کیا قیام پا کستان کے بعد سب سے پہلی تحریک امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں 1953ء میں ختم نبوت کے تحفظ کے لئے چلی جس میں تمام مکاتب فکر کے سر کردہ علماء شریک تھے اس تحریک میں خطیب اسلام حضرت مو لا نا محمد اجمل خان بھی اپنے اکابرین کے ساتھ پھلی صف میں تھے اس تحریک میں خطبا ثلا ثہ امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ،خطیب پا کستان حضرت مو لا نا قاضی احسان احمدشجا ع آبادی اور خطیب اسلام حضرت مو لا نا محمد اجمل خان نے اپنی خطابت کے ذریعے عوام میں ایک نئی رح پھونک دی ہزاروں عاشقان مصطفیٰ ؐ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے لا ہور کو اپنے خون سے رنگین کر دیا 53ء تحریک ختم نبو ت جارہی اور بالآخر 1974ء میں قومی اسمبلی نے قاد یانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
حق و صداقت کا بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا یہ اکا بر کا ورثہ تھا اسکی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مقدمے بنے جیل اور تھانے کے مہمان بنتے رہے لیکن شیخ الہندحضرت مولانا محمودحسن ،حضرت مولانا حسین احمد مدنی ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور دیگر اکابرین کے مشن کو پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اٹھنے والی ہر تحریک میں آپ نمایاں اور بالا نظر آئے 1953اور 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے قائدانہ کردار اداکیا ان مقدس تحریکوں میں ہزاروں علماء و مشائخ نے لاکھوں عوام کے شانہ بشانہ ہمہ قسم کے مصائب و آلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عشق رسول ؐکی انتہا کردی اور دین اسلام،ناموس مصطفی ؐ پرحرف نہ آنے دیا۔
خطیب اسلام حضرت مو لا نا محمد اجمل خان نے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی رفاقت میں جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے ساتھ نائب رہے۔یک بار آپ نے فر ما یا کہ آپ ؐ کی ختم نبو ت کی دلیل آپؐ کا حسن جما ل ہے کیوں کہ تما م مخلو قات میں سب سے زیادہ حسین انبیاء کرام علیھم السلام ہو تے ہیں ۔ آپ پر پر ور دگار نے حسن و جما ل کی انتہاء کر کے بتا دیا کہ اب میرے نبی علیہ الصلو ۃ والسلام کے بعد کو ئی نبی نہیں ہے جیسے میر ے نبی علیہ الصلو ۃ والسلام پر حسن وجما ل ختم ہے ایسے ہی آپ علیہ الصلو ۃ والسلام پر نبو ت ختم ہے ۔ایک با ر کر اچی میں جلسہ سے خطا ب کر تے ہو ئے فر ما یاکہ لو گ میر ے نبی ؐ کی ختم نبوت کے متعلق با ت کر تے ہیں ارے پر وردگار نے تما م انبیاء کرام علیؑ کو نرینہ او لا د کی نعمت سے نو ازا بلکہ ان کو طویل حیا ت بھی نصیب فر ما ئی اولا د ایک نعمت ہے اور اولا د نر ینہ توخاص نعمت ہے نسل اسی سے چلتی ہے پر و ر گار نے میر ے نبی ؐ گو رنر ینہ او لا د سے بھی نو ازالیکن او لا د نر ینہ بھی تو ایک نعمت ہے یہ نعمت نہیں دی رب العلمین نے کہا نہیں نہیں یہ بھی نعمت ضر ور دیتاہو ں لیکن دے کر جلد ہی اٹھا لوں گاکیو نکہ اگر اٹھا تانہیں تو کل کو جب اولا د جو ان ہو گی تو دنیا کفر کہہ سکتی ہے کہ با قی انبیاء کر ام فضیلت میں حضورؐ سے بڑ ھ گئے ہیں کہ ان کی اولا د بھی منصب نبو ت پر پہنچی ہے
حضر ت اسحا قؑ کے خا ندان کو دیکھ لیں ساراخاندان نبوت سے بھراپڑا ہے لیکن حضور ؐ کی او لا د اتنے بڑے نبی کے صا حبزادے ہیں اور نبوت کے مقام پر نہیں پہنچ سکے رب العلمین نے کہا دے کر جلدی واپس کر تا ہو ں تا کہ میر ے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ختم نبو ت پر کو ئی حر ف نہ آئے۔حضر ت کی خطابت کی ایک خاص بات جو سب نے تسلیم کی کہ آپ نے حق با ت کہنے میں کسی کی پر واہ نہ کی ۔ ملک میں جب نظا م مصطفےؐ کے نفا ذ اور مقام مصطفیؐ کے تحفظ کے لیے تحریکا ت چلیں توآپ صف اول میں نظر آئے۔حضرت مولانا محمد اجمل خان نے اپنے اکابرین کے مشن کو علماء اور عوام تک پہنچا یا اور خوب پہنچایا اور ماہ مئی میں ۹ ربیع الاوال کو دنیا فانی سے رحلت فر ماگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون