عصرِ حاضر کے مجدد الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

عبدالمالک مجاہد
عصر حاضر میں جن شخصیات سے میں متاثر ہوں یا جن سے فائدہ اٹھایا ہے یا جن کو میں فالو کرتا ہوں، ان میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کا نام سرفہرست ہے۔ میں ان کو اس دور کا مجدد سمجھتا ہوں۔ اس دور میں انھوں نے اسلام کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ جب کبھی اس شخصیت کے حالات واقعات پڑھتا ہوں تو بے شمار لوگوں کی طرح میں بھی کہہ اٹھتا ہوں کہ اس شخصیت میں واقعی سلف صالحین کی صفات پائی جاتی ہیں۔ ہم تھوڑا سا ان کے ابتدائی حالات جانتے ہیں اور پھر ان کے اخلاق، کردار، علم، تقویٰ اور دیگر صفات کے حوالے سے بات کریں گے۔
ان کا پورا نام عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز تھا۔ وہ 1910ء یعنی 1330ھ کو ریاض کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے وہ نہایت سخی اور کریم النفس تھے اوردن کا بیشتر وقت مسجد میں گزارتے۔شیخ ابن باز کی بصارت بچپن میں بالکل ٹھیک تھی مگر جب ان کی عمر سولہ سال ہوئی تو آ ہستہ آ ہستہ ان کی بصارت کم ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ بیس سال کی عمر میں ان پر ایک وقت آیا کہ وہ مکمل طور پر نابینا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بصارت تو لے لی مگر ان کو قوت حافظہ، ذہانت اور فطانت عطا فرما دی۔ وہ غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے۔ وہ عصر حاضر میں اہل سنت کے امام تھے۔3 وہ اس صدی میں دین اسلام کے مجدد تھے۔4 گزشہ چار سو سال میں ان جیسا عالم جلیل پیدا نہیں ہوا۔5 وہ سلفیان عالم کے امام تھے۔شیخ ابن باز نے چھوٹی عمر ہی میں قرآ ن پاک حفظ کر لیا تھا۔ انھیں قرآ ن پاک پر مکمل عبور تھا۔ میں نے ان کی بہت ساری تقاریر اور خطابات سنے ہیں۔ وہ قرآ ن پاک سے استدلال کرکے اپنی تقریر کو مزین فرماتے۔ میں نے دوران تقریر اتنا کثرت سے قرآنی آیات کو پڑھتے ہوئے کسی کو دیکھا نہ سنا۔ انھوں نے ریاض میں مقیم علمائے کرام سے علم حاصل کیا۔ ان کے اساتذہ میں قاضی ریاض شیخ سعد بن حمد بن عتیق بھی شامل تھے۔  شیخ ابن باز ہمیشہ پاک و ہند کے علمائے اہل حدیث کے معترف رہے اور ان کا احترام کرتے رہے کیونکہ ان کے استاد محترم نے ہند کے علماء سے علم سیکھا تھا۔ شیخ سعد بن حمد نے ہندوستان میں قیام کے دوران اپنا مشہور رسالہ ’’عقیدۃ الطائف النجدیہ فی توحید الالوھی‘‘ لکھا۔ وہ 1304ھ میں واپس سعودی عرب آ ئے۔
 شیخ ابن باز نے سب سے پہلے ریاض سے جنوب کی جانب کم و بیش 100 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دلم نامی قصبے میں بطور قاضی اپنی ذمہ داریاں شروع کیں، پھر وہ متعدد ذمہ داریوں اور مناصب پر کام کرتے کرتے ایک روز مدینہ یونیورسٹی کے پہلے نائب رئیس اور پھر رئیس جامعہ اسلامیہ بنا دیے گئے۔ یہ مدت 1381ھ سے شروع ہوتی ہے۔ مدینہ شریف میں قیام کے دوران میں وہ مسجد نبوی شریف میں درس دیتے رہے۔ پھر انھیں سعودی عرب کا مفتی اعظم اور علماء کونسل کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’ سنہری یادیں ‘‘ میں ان کے علمی حلقے میں شرکت کے بارے میں لکھا ہے۔یہ دسمبر 1994ء کی جمعرات کی صبح تھی۔حاضری پندرہ سو سے متجاوز تھی جس میں یونیورسٹیوںکے اساتذہ اور بڑی بڑی شخصیات شامل تھیں۔ اس درس میں شیخ ابن باز نے تفسیر ابن کثیر اور احادیث کی کتب کی اہمیت پر درس دیا تھا۔ بلاشبہ یہ بڑا روح پرور منظر تھا۔
شیخ ابن باز ایسی عظیم شخصیت تھے جو اللہ کے رسول ؐ کی زبانِ رسالت سے بیان کردہ اس حدیث قدسی کے مطابق تھے ’’ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو بلا کر کہتے ہیں: بلاشبہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں، چنانچہ تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل ؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر جب جبریل علیہ السلام آ سمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں، تم بھی اس سے محبت کرو تو آ سمانوں والے، یعنی فرشتے بھی اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر دنیا میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، حدیث: 6040)
میں سمجھتا ہوں کہ شیخ ابن باز بھی ان شاء اللہ انھی لوگوں میں سے ہیں جن سے دنیا والے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔میں 1980ء￿ میں جب سعودی عرب آ یا تو پاکستان میں ان کا نام سن رکھا تھا۔ وہ اس زمانے میں مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔میرے سعودی عرب آ نے کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کو سعودی عرب کا مفتی عام بنا دیا گیا۔ وہ ریاض میں مقیم تھے۔ شمیسی ہسپتال کے پیچھے ایک مسجد سے ملحق ان کا دفتر تھا۔ ان کا مرتبہ وزیر کے برابر تھا۔ دفتری امور کیلئے ان کے متعدد سیکرٹری تھے۔ وہ گھر سے نکلتے تو ان کا سیکرٹری ڈاک پڑھتا جاتا اور وہ گاڑی ہی میں اس کا جواب لکھواتے جاتے۔ سیکرٹری لکھتا تو چند سیکنڈ میں شیخ عبدالعزیز الموسیٰ اس پر مہر لگا دیتے۔ کسی کے اقامہ کا مسئلہ ہے، کوئی فیملی ویزا کے لیے، کوئی قیدی کی رہائی کے لیے اور کوئی مدرسہ کے فنڈز کے لیے، گویا مختلف انواع کی درخواستیں پر فوری احکام صادر  کئے جاتے۔
اگر شیخ ابن باز کو عصر حاضر کا حاتم طائی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ جب ریاض میں ہوتے تو ان کے گھر کے دروازے دو وقت ہر خاص و عام کے لیے کھلتے۔ ان کے دستر خوان پر امیروں، فقیروں، پڑھے لکھے، ان پڑھوں سب کو دیکھا۔ سادہ سا کھانا مگر اتنا لذیذ کھانا، چاول کے بڑے بڑے ٹرے ان پر گوشت کے ٹکڑے، سبزی، روٹی، سلاد لوگ مزے لے لے کر کھاتے۔ اس دستر خوان پر امیر اور غریب کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ایک زمانے میں ان کا باورچی پاکستانی تھا جو بڑا ہی مزیدار کھانا بناتا تھا۔ مہمانوں کی چائے اور قہوہ سے ضیافت کی جاتی۔ 
شیخ ابن باز کسی خاص فقہ کے مقلد نہ تھے۔ وہ قرآ ن و حدیث کو اپنے فتاویٰ کی بنیاد بناتے اور محدثین کے مسلک کے مطابق قرآ ن و سنت کی رہنمائی میں فتاویٰ دیتے۔ وہ تقلید جامد کے قائل نہ تھے بلکہ ’’ اذا صح الحدیث فھو مذھبی ‘‘ کے شدت سے قائل تھے۔ انھوں نے بہت ساری کتب اور چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے۔ ان کی کتب یا رسائل کو پڑھتے جائیں، ان کے نفس مضمون سے آ پ کو شیخ کے منہج اور عقیدے کا اندازہ ہوتا جائے گا۔ وہ چونکہ سعودی عرب کے مفتی اعظم تھے سعودی  حکمران ان کو سماح الوالد کہہ کر پکارتے تھے۔ اگر ان کی طرف سے سفارش آ تی تو اسے کم ہی رد کرتے تھے۔ بڑے بڑے تاجر تمنا کرتے کہ شیخ ان سے کچھ مانگیں۔ مگر انھوں نے اپنی ذات کے لیے شاید ہی کبھی کسی سے کچھ مانگا ہو۔ دنیا کے چاروں اطراف میں اور کم و بیش ہر ملک میں ان کی وجہ سے اسلامی مراکز، مساجد، مدارس اور یتیم خانے بنائے گئے۔دنیا بھر میں اور کم و بیش ہر ملک میں ان کی وجہ سے اسلامی مراکز، مساجد، مدارس اور یتیم خانے بنائے گئے۔بڑے بڑے حکمران اور تاجر تمنا کرتے کہ شیخ ان سے کچھ مانگیں۔ مگر انھوں نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کچھ مانگا۔

ای پیپر دی نیشن