مولانا جھڑبیری اور سنجیدہ انقلاب۔

پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ بس اب بہت ہو گئی، اب انقلاب لا کر ہی دم لیں گے چنانچہ اس کا اعلیٰ سطح کا وفد مولانا فضل الرحمن کے پاس پہنچ گیا اور عرض گزاری کہ یا حضرت اقدس ، ہمیں انقلاب ہر صورت چاہیے۔ براہ کرم ہمیں انقلاب فراہم کریں۔ سنا ہے کہ مولانا نے پہلے تو ضروری تصحیح کی اور کہا کہ میں حضرت اقدس کب سے ہو گیا، میں تو مولانا ڈیزل بلکہ صرف ڈیزل ہوں۔ لیکن وفد نے یہ تصحیح ماننے سے انکار کر دیااور اصرار کیا کہ نہیں آپ مولانا ڈیزل نہیں ہیں۔ آپ حضرت اقدس ہیں، آپ کا نورزانی چہرہ آبِ زمزم سے تازہ دھلا لگتا ہے اور آپ کے منہ سے گلاب کے پھول، سر کے بالوں سے گلاب کا عرق ٹپک رہا ہے۔ کمرے میں روحانی کستوری کی مہک ہے۔ آپ عام مولانا نہیں ہیں، آپ از رجال غیب ہیں، دست غیب دراز فرمائیے اور ہمیں ایک عدد انقلاب عطا فرمائیے۔ 
بہرحال ، قصہ مختصر، مولانا نے پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطح کے وفد کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا اور انہیں چائے پلائی اور بسکٹ کھلائے۔ مولانا کے ہاں 
بسکٹوں کی کمی نہیں قیصر 
ایک مانگو پچاس ملتے ہیں۔
قیصر سے مراد اسد قیصر جو اعلیٰ سطح کے وفد میں اعلیٰ سطح پر فائز تھے، اس اعلیٰ سطح سے کچھ اوپر کی سطح پر فیلڈ مارشل کے پوتا صاحب تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ کچھ ضمانتیں چاہئیں۔ اعلیٰ سطح کے وفد نے جیبیں ٹٹولیں، وہاں نوٹ تو بے حساب تھے اور اے ٹی ایم اور کریڈٹ ڈیبٹ کارڈ بھی لیکن ضمانت نہیں تھی، وہ شاید گھر پر ہی بھول آئے۔ 
مولانا نے مشروط آمادگی تحریک کے حوالے سے ظاہر کی ہے۔ یعنی یہ کہ تحریک وہ چلائیں گے اور قائد تحریک بھی وہی ہوں گی اور جو انقلاب برآمد ہو گا، اس کے جملہ حقوق ملکیت بھی انہی کے نام ہوں گے۔ وفد یہ شرط سن کر غیر مشروط طور پر واپس ہو گیا۔ اطلاع یہ ہے کہ مولانا نے یہ بھی یاد دلایا کہ میرا مینڈیٹ کے پی میں چوری ہوا ہے اور مولانا نے پوچھا کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ مال مسروقہ کس کے گھر میں ہے۔ اس پر اسد قیصر نے پوتا صاحب کی طرف دیکھا اور پوتا صاحب نے اسد قیصر کی طرف دیکھا۔ پھر دونوں نے اِدھر اْدھر دیکھا۔ اتنے میں چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ 
____
پی ٹی آئی انقلاب لانے میں بہت سنجیدہ ہے، بالکل انہی سدابہار پوستی صاحب کی طرح جو سڑک کنارے جھڑبیری کی چھا?ں میں دراز تھے اور بیر کھانے میں بہت سنجیدہ تھے۔ کوئی راہگیر گزرا تو ان صاحب نے جو نہ جانے کتنی مدّت سے وہاں دراز تھے، اسے اشارے سے اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ صاحب ان کے پاس گئے تو اشارہ کیا کہ جھک کہ میری بات سنو۔ یہ صاحب سمجھے کہ مریض قریب المرگ والا معاملہ لگتا ہے، شاید کوئی وصیت کرنا چاہتے ہیں۔ سر جھکایا تو سدا دراز نے کہا، میرے سینے پر صبح سے ایک بیر گرا پڑا ہے، نہ جانے کتنوں کو بلایا لیکن کسی نے میری گلّ ناں سنی۔ عرض ہے کہ یہ بیر میرے سینے سے اٹھا? اور میرے منہ میں ڈال دو۔ میں بیر کھانے کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ 
پی ٹی آئی انقلاب لانے میں بہت سنجیدہ ہو گئی ہے، اس نے مولانا کو آواز دی ہے کہ دستگیری کریں۔ فرق اس قصے اور تازہ ماجرے میں یہ ہے کہ قصے میں انقلاب، معاف کیجئے، بیر موصوف کے سینے پر دھرا تھا، راہگیر نے صرف اٹھا کر موصوف کے منہ میں ڈالنا تھا۔ یہاں ماجرا یہ ہے کہ انقلاب کا بیر کس جھڑبیری میں لگا ہے، یہ ڈھونڈنے کی ذمہ داری بھی موصوفہ یعنی پی ٹی آئی نے مولانا کے ذمے لگائی ہے اور پھر بیر توڑنے، موصوفہ کے پاس لانے اور پھر موصوفہ کے دہن مبارک میں ڈالنے کے فرائض بھی مولانا نے انجام دئیے ہیں۔ اس بیچ ڈر اس بات کا تو بہرحال رہے گا کہ انقلاب کا بیر توڑنے کے بعد مولانا نے اسے خودنوش فرمانے کا ارادہ فرما لیا تو کیا ہو گا۔ 
پھر بھی، مکرّر عرض ہے کہ پی ٹی آئی اس بار انقلاب لانے میں بہت سنجیدہ ہے۔ 
____
ادھر پی ٹی آئی کا چار جماعتوں پر مشتمل چھ جماعتی اتحاد عملاً ساڑھے تین جماعتوں کا رہ گیا ہے کہ ایک رکن جماعت یعنی محمود اچکزئی کی جماعت نے گھر بیٹھ کر تحریک کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ 
اچکزئی صاحب عملاً گھر بیٹھ چکے ہیں، برسرعام ’’جہاد‘‘ کرنے کے بجائے انہوں نے گوشہ نشین ہو کر انقلاب کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے کل ہم باہر نکلیں گے کا نعرہ لگا کر پی ٹی آئی والے اگلے دن گھر کے ٹی وی لائونج میں بیٹھ کر ٹی وی سکرین سے انقلاب کی خبریں تلاش کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی۔ کچھ اسی قسم کا لائحہ عمل اختر مینگل کی جماعت کی طرف سے بھی متوقع ہے۔ 
____
انقلاب تو جب آئے گا، تب آئے گا۔ فی الحال پی ٹی آئی کو’’ٹکرّ‘‘ کے لوگ مل گئے ہیں۔ پی ٹی آئی عرصہ سے ٹکرّ کے لوگوں کے انتظار میں تھی اور انہیں چیلنج پر چیلنج دے رہی تھی۔ دو روز پہلے اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں اسے یہ لوگ مل گئے۔ محترمہ پی ٹی آئی صاحبہ کسی فرینڈلی ٹاک شو سے واپس آ رہی تھیں (یہاں محترمہ کو اسم جنس نہیں، اسم علامت سمجھئے) کہ سامنے سے چار پانچ ٹکّر کے لوگ ان سے ٹکرا گئے۔ اگلے روز محترمہ کو وہیل چیئر پر دیکھا گیا۔ محترمہ نے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ ٹکر کے لوگ کہاں سے آئے، جوڈیشل کمشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن