سائفر معاملہ، فوجداری کیس گواہوں پر جرح کے بغیر کیسے ختم ہو سکتا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور  شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس پر سماعت کے دوران عدالت نے دریافت کیا کہ فوجداری کیس گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟۔ سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ والدہ کی طبیعت ناسازی کے باعث  پیش نہ ہوئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایک درخواست جو دائر کردی گئی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے موسم سرما کی تعطیلات پر ہی کی گئی، کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھٹیوں کا نوٹیفکیشن سیشن کورٹ پر لاگو نہیں ہوتا؟۔ کیا جج صاحب نے یہ نہیں سمجھا کہ ان کو موسم سرما کی تعطیلات کرنی ہیں۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سیشن کورٹ میں ایک جج چھٹی پر جاتے ہیں تو دوسرے جج نے ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے، سپیشل کورٹس کے حوالے سے رولز مختلف ہیں، ہائی کورٹ رولز 4 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص جیل میں ہو تو وہاں جیل ٹرائل ہوسکتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ کاش یہ رولز کچھ مخصوص حالات کے لیے ہوتے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جیل ٹرائل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ رولز کے مطابق ہوا ہے، پورے ٹرائل میں ملزموں کی جانب سے تاخیر کی گئی، کب کب کیسے تاخیری حربوں کا استعمال کیا گیا، ریکارڈ موجود ہے۔ فیصلے کے وقت دونوں ملزم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں موجود تھے، دونوں ملزموں کو سرکاری وکلا فراہم کیے گئے مگر انہوں نے انکار کیا۔ پراسیکیوٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لطیف کھوسہ  شاہ محمود قریشی کے وکیل تھے مگر وہ آتے ہی نہیں تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کھوسہ صاحب کیوں نہیں آتے تھے؟۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کھوسہ صاحب نے پہلے وکالت نامہ جمع کیا اور پھر کہا میں وکیل نہیں ہوں، میں اگر یہاں بتاؤں تو ہر دوسرے روز بعد نیا وکالت نامہ آتا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوجداری کیس میں گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزموں کو سرکاری وکلا دیے تھے اور انہوں نے ہی جرح کرلی تھی، ملزموں کے وکلا جرح کرنا چاہتے تو ان کے پاس مواقع تھے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری وکیل کی تعیناتی صرف اسی وجہ سے ہوئی کہ تاخیری حربے استعمال کیے جاتے تھے؟۔  جہاں پروسیجر صحیح نہیں ہوا تو ریمانڈ بیک کیا جائے گا تاکہ فیئر ٹرائل ہو؟۔ اور آگر عدالت مطمئن نہ ہو تو پھر میرٹ پر فیصلہ کرے گی؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر کو ہدایت دی کہ ججمنٹ پڑھنے کے بجائے آپ ہمیں ٹائٹل نوٹ کرائیں۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگلی تاریخ دیں، میرٹ پر دلائل ہوں گے تو ممکن ہو شاہ صاحب آجائیں۔ سلمان صفدر نے کہا کہ پلیز آج ہی ختم کردیں، میں نے بھی جواب الجواب دینا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ مجھے بھی دلائل کے لیے پانچ، دس منٹ چاہیے۔ عدالت نے درافت کیا کہ نقوی صاحب آپ ہمیں اپنا پلان بتائیے کہ آپ مزید کتنا وقت لینا چاہتے ہیں؟ یہ پبلک ٹائم ہے، ہم نے فیصلے لکھنے ہوتے ہیں، ابھی آپ کہتے ہیں اگلے ہفتے تک ملتوی کریں، آپ کو کل کتنا وقت چاہیے؟۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مجھے مزید دلائل کے لیے ایک گھنٹہ درکار ہوگا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک گھنٹہ مطلب ایک گھنٹہ، ہم گھڑی کے حساب سے دیکھیں گے۔ اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پیر کو ہم دونوں کو 45 ، 45 منٹ دے دیں تاکہ ہم دونوں کام کو ختم کریں۔ اس موقع پر عدالت نے پراسیکیوٹر کو آئندہ ہفتے ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر کو بھی 45 منٹ میں جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بدھ کے روز ہم کوشش کریں گے کہ نارمل ڈویژن بینچ نہ ہو۔ بعد ازاں عدالت نے  سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر دی نیشن