کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے مختلف علاقوں سے 2018ء سے لاپتا شہری سمیت دیگر افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر آئندہ سماعت پر وزارت دفاع کو تمام ایجنسیوں سے رپورٹس حاصل کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی کے مختلف علاقوں سے 2018ء سے لاپتہ شہری سمیت دیگر افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ساؤتھ کے علاقے سے لاپتا شہری سید نوید کی بازیابی کے لیے 23 جے آئی ٹیز کے اجلاس ہوچکے ہیں لیکن کیٹیگری کا تعین نہیں ہوسکا۔عدالت نے شہری کی عدم بازیابی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 23 جے آئی ٹیز کے بعد بھی کیٹیگری کا تعین نہیں ہوسکا کس طرح کی کارکردگی ہے، شہری کے اہل خانہ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی روایتی رپورٹس سے مایوس ہوچکے ہیں۔منگھوپیر سے لاپتہ شہری عبداللہ کے اہل خانہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ اہل خانہ نے کہا کہ عبداللہ 2018ء سے منگھو پیر سے لاپتا ہے، چند دنوں سے ہمیں فون کالز کی جارہی ہیں اور 7 لاکھ تاوان کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے جس نمبر سے کالز کی جارہی ہیں اس نمبر کی لوکیشن ڈیرہ غازی خان کی ہے وہ فون نمبر ہم نے پولیس کو فراہم کیا، لیکن پولیس کی جانب سے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔عدالت نے پولیس حکام کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا اس نمبر کو انویسٹی گیٹ کیا گیا؟ شہری کے اہل خانہ 2018ء سے تو عدالتوں اور پولیس اسٹیشنز کے چکر کاٹ رہے ہیں آپ کو کچھ اندازہ ہے وہ کس تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں۔تفتیشی افسر نے کہا کہ جو نمبر ہمیں دیا گیا اس کی لوکیشن تو ڈیرہ غازی خان کی ہے لیکن نمبر بند ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ شہری کے اہل خانہ نے سی ڈی آر رپورٹس پیش کردی انہیں اس نمبر سے کالز کی جارہی ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں نمبر بند ہے۔عدالت نے سید نوید علی، رسالہ کے علاقے سے ادریس، منگھو پیر سے لاپتہ عبداللہ اور دیگر شہریوں کی بازیابی کیلئے کارروائی جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے آئندہ سماعت پر وزارت دفاع کو تمام ایجنسیوں سے رپورٹس حاصل کرکے پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت نے لاپتا شہریوں سے متعلق ایف آئی اے سے ٹریول ایجنسی کی رپورٹ حاصل کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے شہری عبد اللہ کے کیس میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو پیش رفت رپورٹس کے ساتھ طلب کرتے ہوئے سماعت 21 اگست تک ملتوی کردی۔