اقتدار کی جنگ میں غیر روایتی ہتھیار

Nov 24, 2009

محمد ساجد خان
پاکستان کی اشرافیہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ سب سدا بہار منافقین کا ٹولہ ہے۔ جو اعلیٰ انتظامیہ سے گٹھ جوڑ کرکے عرصہ دراز سے اقتدار میں حصہ دار ہے۔ نظام جمہوریت کے دعوے دار ہمیشہ سے قانون اور انصاب کے مخالف رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی سیاسی معذولی کے بعد ان لوگوں نے میڈیا اور سیاسی جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ایسی جنگ شروع کردی ہے جو جمہوری نظام کیلئے بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ ہی لوگ صدر زرداری کو صدر بنوانے پر درپردہ اہم کردار ادا کرتے رہے اور جب زرداری صاحب نے ان کے طور طریقے دیکھے تو ان کو اندازہ ہوا کہ ان کو اپنی جنگ خود ہی لڑنا ہوگی ان کی اپنی جماعت میں انتشار ہے۔ وہ اس وقت زیادہ خطرناک ہیں ان پر سب سے بڑا حملہ بیرون ملک کے میڈیا کی طرف سے ہوا ہے۔ ان پر حملہ آور ان کا پرانا حلیف جنرل مشرف ہے، جنرل مشرف نے اپنے بیان کی تردید نہیں کی۔ مگر ان کے دوستوں نے جنرل کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ جنرل مشرف سے منسوب بیان زرداری صاحب کی ذات کے بارے میں نہیں ہے اور صدر پاکستان کے بار ے میں سابق صدر سب کچھ بیان کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگ جنرل مشرف کے بیان پر بہت ناراض نظر آتے ہیں۔ مگر ان سب کا ردعمل بہت ہی مایوس کن ہے۔ کابینہ نے بھی اس سلسلہ میں قابل ذکر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ صرف نوازلیگ کے چوہدری نثار علی خاں نے اسمبلی کے فلور پر گیلانی سرکار کو ہلا شیری دینے کی کوشش ضرور کی۔
پرانے وقتوں میں سیاسی جنگ میں حریف اور حلیف ایک دوسرے کے لوگوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ لوگوں کو سبز باغ دکھاتے تھے۔ مگر اس طرح کے روایتی ہتھیار اب زیادہ کارآمد نہیں رہے۔ اس کی بجائے بیرون ملک سے دوستوں کی مداخلت اور مشاورت اس جنگ میں روایتی ہتھیاروں کی بجائے خفیہ ہتھیار ہوتے ہیں۔ حکومت نے کیری لوگر بل پر من و عن عمل کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے جو افواج پاکستان کیلئے زیادہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کا ردعمل بھی سامنے آچکا ہے۔ مگر زرداری صاحب کو یقین ہے کہ فوج ملکی صورت حال میں سیاسی مداخلت نہیں کرسکتی۔ گزشتہ دنوں جب ان کی ملاقات سابق وزیراعظم نوازشریف سے ہوئی تو وہ بھی فریقین کیلئے یکسوئی نہ لاسکی۔ اس ساری صورت حال میں اندازہ ہے کہ خفیہ ہاتھوں نے جنرل مشرف کے سب سے قریبی اور بااعتماد حلیف الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔الطاف حسین کی طرف سے این آر او کی مخالفت کی گئی۔ اگرچہ ان کے خاصے لوگ اس قانون کی وجہ سے محفوظ ہو چکے ہیں پھر ایم کیو ایم سے دیگر لوگوں نے الطاف حسین صاحب کی زبان میں گیت گایا۔ اس کے فوراً بعد ہی فیصلہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم اس نئی صورت حال میں اعتماد میں لے گی۔ اس کےلئے دونوں طرف سے دوبئی میں مذاکرات کا انتظام کیا گیا۔ فوج اس تمام صورت حال میں اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ دوبئی میں ایم کیو ایم کے انور اور پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نے مشاورت کی۔ اس تمام مشاورت کے باوجود کسی بھی طرح سے الطاف حسین صاحب کے بیان سے ایم کیو ایم دستبردار ہونے پر تیار نہ ہوئی۔وزیر داخلہ نے سندھ کے حوالہ سے خاصی مراعات کی پیش کش بھی کی۔ سندھ میں شہری حکومت کے سلسلہ میں یقین دہانی بھی کرائی۔ مگر ”بوجوہ“ ایم کیو ایم نے زرداری صاحب کو یقین دہانی کروانے سے معذوری ظاہر کردی۔دوسری طرف زرداری صاحب نے معاملات کی قانونی درستگی کیلئے پارٹی کے پرانے جانثاروں سے بھی معاملات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس صدارتی محل میں بلایا گیا۔ اس میں وہ لوگ بھی موجود تھے جن پر بدانتظامی اور کرپشن کے الزامات لگے ہوئے ہیں عدلیہ میں ان کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ایسے لوگوں کیوجہ سے پیپلز پارٹی کا چہرہ مسلسل خراب ہو رہا ہے۔عقاب اس تمام صورت حال میں مطمئن نظر نہیں آتے۔ افواج پاکستان حالت جنگ میں ہیں۔ گیلانی سرکاری کو اندازہ ہے کہ فوج جلد ہی سرحدی علاقوں کی شورش پر قابو پا لے گی۔ اسی وجہ سے طالبان سے گفتگو کا معاملہ ٹالا جا رہا ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن نے گیلانی سرکار کو یقین دہانی کروائی کہ وہ طالبان سے معاملہ کروا سکتے ہیں فوج بھی اس معاملہ پر مثبت ردعمل ظاہر کر رہی ہے کیونکہ امریکہ افغانستان میں طالبان سے جنگوں کا آغاز کر چکا ہے، فریقین کسی قابل قبول معاہدے کیلئے تیار بھی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف میاں نوازشریف بھارتی جمہوریت کی توصیف کا گیت گا رہے ہیں گیلانی سرکار بین الاقوامی دباﺅ کے ذریعہ بھارت سے مذاکرات چاہتی ہے جس کے سلسلہ میں بیک ڈور ڈپلومیسی کام کر رہی ہے۔ بھارت کشمیر کے سلسلہ میں مقامی قیادت سے مذاکرات کر چکا ہے اس معیاری صورت حال میں صدر زرداری اور فوج کے عقابوں کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ صدر زرداری فوج میں اہم تبدیلیاں وزیراعظم گیلانی کے ذریعے کرنے کے خواہش مند ہیں مگر ان تجاویز پر فوج کے ساتھ ساتھ حلیف سیاسی جماعتیں تیار نہیں۔ صدر زرداری بڑی خاموشی سے غیر روایتی ہتھیاروں سے پاکستان کی سیاست کا نقشہ بدلنا چاہتے ہیں ابھی تک تو ان کے بیرون ملک دوست ان سے متفق نہیں مگر غیر روایتی ہتھیار قابل بھروسہ نہیں ہوتے۔ اس ہی وجہ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں زیادہ بڑی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔
مزیدخبریں