سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے خزانہ نے بعض سفارشات کے ساتھ اصلاح شدہ جی ایس ٹی، دس فیصد فلڈ سرچارج اور دو فیصد سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کے بلوں کی منظوری دے دی۔ ان مجوزہ اضافی ٹیکسوں کے مخالفین بلوں کی منظوری کے مرحلہ میں اجلاس سے غیر حاضر رہے جبکہ ووٹنگ کے وقت مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی کے ارکان اُٹھ کر باہر چلے گئے چنانچہ وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی تقریر کی روشنی میں متذکرہ مسودات قانون کی بغیر کسی مخالفت اور مزاحمت کے منظوری دے دی گئی۔
یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی کی سب سے زیادہ مخالفت کرنیوالی حکومتی حلیف ایم کیو ایم کے سینیٹر احمد علی شیخ جو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین بھی ہیں خود بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں انکی عدم موجودگی میں اسلام الدین شیخ نے اجلاس کی صدارت کی اور وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اس بیان پر کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت چل رہا ہے ہمیں بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہی پڑیگا‘ قائمہ کمیٹی کے حاضر ارکان نے متذکرہ مسودات قانون کی منظوری دے دی جس سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی، فلڈ سرچارج اور سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کے بل حکومت اور اپوزیشن کی افہام و تفہیم سے پارلیمنٹ میں بھی منظور کر لئے جائینگے۔ حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی جے یو آئی کو ملنے پر پہلے ہی ریفارمڈ جی ایس ٹی اور دیگر وفاقی اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کے حق میں ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں جبکہ اے این پی کی جانب سے بھی گذشتہ روز ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مشروط حمایت کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ایسی شرائط بالعموم حکومت کی حمایت کے عوض اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے عائد کی جاتی ہیں جیسے مولانا فضل الرحمان اب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی خاطر دوبارہ حکومت کو آنکھیں دکھاتے نظر آ رہے ہیں جن کے بقول ابھی جے یو آئی نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کی حمایت کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ ووٹنگ کا مرحلہ آنے تک یقیناً مولانا فضل الرحمان کے نئے مطالبات بھی تسلیم کر لئے جائینگے اور ان کے ارکان پارلیمنٹ متذکرہ مسودات قانون کی منظوری کے مراحل میں حکومت کے حامی و مددگار بنتے نظر آئینگے۔
حکومت اور اپوزیشن نے 18ویں آئینی ترامیم کی طرح باہم شیر و شکر ہو کر جس انداز میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں متذکرہ عوام کُش اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی منظوری دی وہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ حکمران جماعتیں ہی نہیں اپوزیشن جماعتیں بھی روزمرہ کے مسائل میں گھرے بے وسیلہ عوام کو انکے روٹی روزگار، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے متعلق مسائل سے نجات دلانے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتیں اس لئے عوام کے ساتھ ہمدردی اور انکے مسائل کے حل کیلئے لانگ مارچ کرنے کے نعرے اور دعوے سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور وہ اس استحصالی نظام کو مسلط رکھنا چاہتی ہیں جو وسائل سے محروم عوام الناس کو زندہ درگور کر کے حکمران اشرافیہ طبقات کی مراعات و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس صورتحال میں عوام الناس کو بھی اپنے اپنے قائدین کے معاملہ میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کیونکہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات حکومت اور اپوزیشن دونوں کی صفوں میں شامل ہیں جو صرف اپنے حقوق و مفادات کیلئے منتخب فورموں پر بیک آواز ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کیخلاف کسی قانون کی منظوری کی نوبت نہیں آنے دیتے جبکہ انکی مزید مراعات، سہولتوں اور اختیارات کیلئے پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا کوئی بھی قانون پلک جھپکتے میں متفقہ طور پر یہ منظوری کے مراحل طے کر جاتا ہے۔
ریفارمڈ جی ایس ٹی اور دو فیصد سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے تو عام آدمی براہ راست متاثر ہو گا کیونکہ ان ٹیکسوں کا اصل بوجھ عوام نے ہی برداشت کرنا ہے جو پہلے ہی بجلی‘ گیس‘ پانی‘ پٹرولیم مصنوعات‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء بشمول اشیائے خوردنی اور اجناس کے نرخوں میں آئے روز اضافے سے عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں جبکہ اقتصادی ماہرین کی آراء کے مطابق ریفارمڈ جی ایس ٹی کے نفاذ سے یوٹیلٹی بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہی مزید اضافہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اس سے روزمرہ استعمال کی کم و بیش تمام اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ بندھے اس اضافی ٹیکس کا نفاذ غریب عوام کے تن پر موجود چیتھڑے بھی اتروانے اور انہیں آسودہ زندگی کی رہی سہی آس سے بھی محروم کرنے کے مترادف ہو گا۔
یقیناً ان آراء کی بنیاد پر ہی سب سے پہلے ایم کیو ایم متحدہ نے اس ٹیکس کی مخالفت کا جھنڈا اٹھایا اور نعرہ لگایا کہ یہ ٹیکس پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہونے دیا جائیگا‘ اسی طرح اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جانب سے بھی ریفارمڈ جی ایس ٹی کو عوام کیخلاف سازش قرار دیا گیا اور اسکی ڈٹ کر مخالفت کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے تو اس مجوزہ ٹیکس کیخلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور اس ٹیکس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں سے ایسا ماحول پیدا ہو گیا جس سے بظاہر یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں ریفارمڈ جی ایس ٹی کی منظوری کیلئے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا اور ممکن ہے حکومت مجوزہ ٹیکس واپس لینے پر مجبور ہو جائے مگر گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جس طرح آناً فاناً متعلقہ مسودات قانون منظور کئے گئے‘ وہ عوام سے ہمدردی اور انکے حقوق کی سیاست کرنے کے داعی سیاست دانوں کے دہرے کردار کو بے نقاب کرتا نظر آتا ہے۔
میاں نواز شریف نے تو ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد یہ نعرہ بھی لگا دیا تھا کہ اب انہیں عوام الناس کی روزمرہ کے مسائل حل کرانے کیلئے بھی لانگ مارچ کرنا پڑیگا‘ مگر عملاً وہ ہر قومی اور عوامی ایشو پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اس لئے متبادل قیادت کے طور پر ان سے وابستہ عوام کی توقعات شاید تشنہ تکمیل ہی رہیں گی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن سید ظفرعلی شاہ نے صرف یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت جی ایس ٹی کی اصلاح کے بجائے اپنی کرپشن کی اصلاح کرے اور جب اس بل پر ووٹنگ کا مرحلہ آیا تو وہ اجلاس میں موجود ہی نہیں تھے‘ یہی طریقہ کار دوسری اپوزیشن جماعتوں اور ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مخالف حکومتی حلیف جماعتوں نے اختیار کیا۔ اس طرح بظاہر وہ عوام کو ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مخالف ہونے کا تاثر دے رہی ہیں اور عملاً اجلاس سے غیرحاضر ہو کر اس بل کی منظوری کیلئے حکومت کی معاونت کر رہی ہیں‘ انکی جانب سے یقیناً ایسا منافقانہ طرز عمل پارلیمنٹ کے اجلاس میں مجوزہ مسودات قانون کی منظوری کے وقت بھی اختیار کیا جا سکتا ہے‘ اس لئے سلطانی ٔ جمہور کی سربلندی کیلئے ووٹ دینے والے مظلوم و مجبور عوام آگاہ رہیں کہ باہمی مفاداتی بندھنوں میں بندھا ہوا یہ نظام ان پر مزید عذاب تو مسلط کر سکتا ہے‘ انہیں درپیش مسائل سے ہرگز نجات نہیں دلا سکتا۔ جس سسٹم کی بساط ہی عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی قبول کرنیوالے معاہدات پر بچھائی گئی ہو‘ اسکے مہرے عام آدمی کے مفاد میں کوئی چال چلتے نظر آئیں‘ یہ توقع کرنا عبث ہے‘ اس لئے عوام نے اپنی تقدیر بدلنی ہے تو انہیں حکمران اشرافیہ طبقات کے مفادات باہمی پر مبنی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ ورنہ زندہ درگوری انکے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن
کا مطالبہ اور قومی وقار کا تقاضہ
افغانستان میں نیٹو فوج کے امریکی کمانڈر جنرل پیٹریاس نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے اب تک متاثر کن آپریشن کئے ہیں تاہم قبائلی خطہ میں ابھی مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دریں اثناء صدر زرداری سے وزیراعظم گیلانی اور جنرل کیانی نے ملاقات کی۔ ٹرائیکا کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا وقت آیا ہے نہ دباؤ قبول کریں گے۔ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق آرمی چیف نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائی کے حوالے سے صدر اور وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔
امریکہ کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے پہلی بار مطالبہ کیا گیاتو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس کو یکسر مسترد کر دیا۔ بعد میں یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان خود آپریشن کا فیصلہ کرے گا کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے سخت رویے میں لچک پیدا ہو چکی ہے۔ امریکی ڈکٹیشن پر سوات اور بعدازاں جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہوا۔ شمالی وزیرستان میں بھی فوج موجود ہے۔ اب نئی بات سامنے آئی ہے کہ فوج شمالی وزیرستان میں ٹارگیٹڈ کارروائی کر رہی ہے یا کرنیوالی ہے اور اس مقصد کیلئے وہاں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ ایسا ہے تو پھر آپریشن میں کونسی کسر باقی رہ گئی ہے۔ ایک طرف فوج امریکی مطالبے پر قبائلی علاقہ جات میں آپریشن پر مامور ہے۔ دوسری طرف ڈرون حملے بھی پاکستان کی خود مختاری کو روندتے ہوئے بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ پاک بحریہ کے سربراہ نعمان بشیر نے ہر محب وطن پاکستانی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے ہیلی کاپٹر حملہ ہو‘ یا ڈرون دونوں ملکی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ عمران خان نے ان حملوں کو نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل کی زندہ مثال قرار دیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں اس کام میں سی آئی اے کو پاکستانی دوستوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔
عمران خان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ’’پاکستانی دوستوں‘‘ کی امریکیوں کو درپردہ نہیں کھلی حمایت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت صدر صاحب کا یہ کہنا کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا کوئی افسوس نہیں۔ پہلے تو ڈرون حملوں پر سرکاری سطح پر تھوڑا بہت احتجاج ہوتا تھا اب اس کا بھی تکلف نہیں کیا جاتا۔ قومی وقار کا تقاضا ہے کہ ڈومور کے تقاضوں کو بالکل رد کرتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں آپریشن کے مطالبے کو یکسر رد کر دیا جائے اور بحریہ کے چیف نے جو کہا وہی درست ہے۔ اس کے تناظر میں پاکستان کے علاقے میں داخل ہونے والے کسی بھی ڈرون اور ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جائے۔ پاک فضائیہ ایسا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے
پاکستان میں پرائمری تعلیمی معیار کے اعتبار سے 134 ممالک میں سے 117 نمبر پر ہے‘ جبکہ شرح خواندگی 49.9 بتائی جاتی ہے۔
کوئی بھی ملک اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا‘ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیمی کلچر پروان نہیں چڑھ سکا‘ اسکی سب سے بڑی وجہ سرکاری سطح پر اس شعبے کو بری طرح نظرانداز کرنا ہے۔ نہ صرف اس شعبے پر بہت کم خرچ کیا جاتا ہے بلکہ ہر سال تعلیم کے بجٹ میں کمی بھی کردی جاتی ہے۔ اوپر سے تعلیمی سسٹم میں 97 فیصد کرپشن موجود ہے۔ رپورٹس کے مطابق پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح 66 اور بچیوں کی اس سے نصف 33 فیصد ہے۔ اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم مہنگی ہے‘ تاہم ملکی شرح خواندگی میں اگر کوئی تھوڑی بہت بہتری ہے تو اسی سیکٹر کی بدولت ہے۔ اقتدار میں آنیوالے شرح خواندگی کو بلند ترین مقام پر پہنچانے کے دعوے ضرور کرتے ہیں‘ لیکن عمل نہیں ہوتا۔
پاکستان کے اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہونے کا ذکر سننے کو ملتا ہے جس میں تینوں چیزوں کا فقدان ہے۔ فلاحی ریاست میں تو تعلیم اور صحت کی سہولت بالکل فری ہونی چاہیے‘ عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ گو پرائمری تک تعلیم فری ہے‘ لیکن اس طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بچے عموماً تیسری اور چوتھی جماعت تک پہنچنے سے قبل بھاگ جاتے ہیں۔ اگر شروع سے تعلیم خصوصی طور پر تعلیمی بنیاد پر بھرپور توجہ مرکوز کی گئی ہوتی تو آج بے شمار عوامی نمائندے جعلی ڈگریوں پر پارلیمنٹ میں پہنچ کر تماشا بنتے‘ نہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس نظرانداز کئے گئے شعبے پر بھرپور توجہ مبذول کرتے ہوئے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرے اور اس شعبے میں ہونیوالی بدعنوانیوں پر سختی سے قابو پائے۔
یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی کی سب سے زیادہ مخالفت کرنیوالی حکومتی حلیف ایم کیو ایم کے سینیٹر احمد علی شیخ جو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین بھی ہیں خود بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں انکی عدم موجودگی میں اسلام الدین شیخ نے اجلاس کی صدارت کی اور وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اس بیان پر کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت چل رہا ہے ہمیں بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہی پڑیگا‘ قائمہ کمیٹی کے حاضر ارکان نے متذکرہ مسودات قانون کی منظوری دے دی جس سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی، فلڈ سرچارج اور سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کے بل حکومت اور اپوزیشن کی افہام و تفہیم سے پارلیمنٹ میں بھی منظور کر لئے جائینگے۔ حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی جے یو آئی کو ملنے پر پہلے ہی ریفارمڈ جی ایس ٹی اور دیگر وفاقی اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کے حق میں ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں جبکہ اے این پی کی جانب سے بھی گذشتہ روز ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مشروط حمایت کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ایسی شرائط بالعموم حکومت کی حمایت کے عوض اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے عائد کی جاتی ہیں جیسے مولانا فضل الرحمان اب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی خاطر دوبارہ حکومت کو آنکھیں دکھاتے نظر آ رہے ہیں جن کے بقول ابھی جے یو آئی نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کی حمایت کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ ووٹنگ کا مرحلہ آنے تک یقیناً مولانا فضل الرحمان کے نئے مطالبات بھی تسلیم کر لئے جائینگے اور ان کے ارکان پارلیمنٹ متذکرہ مسودات قانون کی منظوری کے مراحل میں حکومت کے حامی و مددگار بنتے نظر آئینگے۔
حکومت اور اپوزیشن نے 18ویں آئینی ترامیم کی طرح باہم شیر و شکر ہو کر جس انداز میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں متذکرہ عوام کُش اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی منظوری دی وہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ حکمران جماعتیں ہی نہیں اپوزیشن جماعتیں بھی روزمرہ کے مسائل میں گھرے بے وسیلہ عوام کو انکے روٹی روزگار، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے متعلق مسائل سے نجات دلانے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتیں اس لئے عوام کے ساتھ ہمدردی اور انکے مسائل کے حل کیلئے لانگ مارچ کرنے کے نعرے اور دعوے سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور وہ اس استحصالی نظام کو مسلط رکھنا چاہتی ہیں جو وسائل سے محروم عوام الناس کو زندہ درگور کر کے حکمران اشرافیہ طبقات کی مراعات و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس صورتحال میں عوام الناس کو بھی اپنے اپنے قائدین کے معاملہ میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کیونکہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات حکومت اور اپوزیشن دونوں کی صفوں میں شامل ہیں جو صرف اپنے حقوق و مفادات کیلئے منتخب فورموں پر بیک آواز ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کیخلاف کسی قانون کی منظوری کی نوبت نہیں آنے دیتے جبکہ انکی مزید مراعات، سہولتوں اور اختیارات کیلئے پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا کوئی بھی قانون پلک جھپکتے میں متفقہ طور پر یہ منظوری کے مراحل طے کر جاتا ہے۔
ریفارمڈ جی ایس ٹی اور دو فیصد سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے تو عام آدمی براہ راست متاثر ہو گا کیونکہ ان ٹیکسوں کا اصل بوجھ عوام نے ہی برداشت کرنا ہے جو پہلے ہی بجلی‘ گیس‘ پانی‘ پٹرولیم مصنوعات‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء بشمول اشیائے خوردنی اور اجناس کے نرخوں میں آئے روز اضافے سے عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں جبکہ اقتصادی ماہرین کی آراء کے مطابق ریفارمڈ جی ایس ٹی کے نفاذ سے یوٹیلٹی بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہی مزید اضافہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اس سے روزمرہ استعمال کی کم و بیش تمام اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ بندھے اس اضافی ٹیکس کا نفاذ غریب عوام کے تن پر موجود چیتھڑے بھی اتروانے اور انہیں آسودہ زندگی کی رہی سہی آس سے بھی محروم کرنے کے مترادف ہو گا۔
یقیناً ان آراء کی بنیاد پر ہی سب سے پہلے ایم کیو ایم متحدہ نے اس ٹیکس کی مخالفت کا جھنڈا اٹھایا اور نعرہ لگایا کہ یہ ٹیکس پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہونے دیا جائیگا‘ اسی طرح اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جانب سے بھی ریفارمڈ جی ایس ٹی کو عوام کیخلاف سازش قرار دیا گیا اور اسکی ڈٹ کر مخالفت کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے تو اس مجوزہ ٹیکس کیخلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور اس ٹیکس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں سے ایسا ماحول پیدا ہو گیا جس سے بظاہر یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں ریفارمڈ جی ایس ٹی کی منظوری کیلئے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا اور ممکن ہے حکومت مجوزہ ٹیکس واپس لینے پر مجبور ہو جائے مگر گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جس طرح آناً فاناً متعلقہ مسودات قانون منظور کئے گئے‘ وہ عوام سے ہمدردی اور انکے حقوق کی سیاست کرنے کے داعی سیاست دانوں کے دہرے کردار کو بے نقاب کرتا نظر آتا ہے۔
میاں نواز شریف نے تو ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد یہ نعرہ بھی لگا دیا تھا کہ اب انہیں عوام الناس کی روزمرہ کے مسائل حل کرانے کیلئے بھی لانگ مارچ کرنا پڑیگا‘ مگر عملاً وہ ہر قومی اور عوامی ایشو پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اس لئے متبادل قیادت کے طور پر ان سے وابستہ عوام کی توقعات شاید تشنہ تکمیل ہی رہیں گی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن سید ظفرعلی شاہ نے صرف یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت جی ایس ٹی کی اصلاح کے بجائے اپنی کرپشن کی اصلاح کرے اور جب اس بل پر ووٹنگ کا مرحلہ آیا تو وہ اجلاس میں موجود ہی نہیں تھے‘ یہی طریقہ کار دوسری اپوزیشن جماعتوں اور ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مخالف حکومتی حلیف جماعتوں نے اختیار کیا۔ اس طرح بظاہر وہ عوام کو ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مخالف ہونے کا تاثر دے رہی ہیں اور عملاً اجلاس سے غیرحاضر ہو کر اس بل کی منظوری کیلئے حکومت کی معاونت کر رہی ہیں‘ انکی جانب سے یقیناً ایسا منافقانہ طرز عمل پارلیمنٹ کے اجلاس میں مجوزہ مسودات قانون کی منظوری کے وقت بھی اختیار کیا جا سکتا ہے‘ اس لئے سلطانی ٔ جمہور کی سربلندی کیلئے ووٹ دینے والے مظلوم و مجبور عوام آگاہ رہیں کہ باہمی مفاداتی بندھنوں میں بندھا ہوا یہ نظام ان پر مزید عذاب تو مسلط کر سکتا ہے‘ انہیں درپیش مسائل سے ہرگز نجات نہیں دلا سکتا۔ جس سسٹم کی بساط ہی عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی قبول کرنیوالے معاہدات پر بچھائی گئی ہو‘ اسکے مہرے عام آدمی کے مفاد میں کوئی چال چلتے نظر آئیں‘ یہ توقع کرنا عبث ہے‘ اس لئے عوام نے اپنی تقدیر بدلنی ہے تو انہیں حکمران اشرافیہ طبقات کے مفادات باہمی پر مبنی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ ورنہ زندہ درگوری انکے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن
کا مطالبہ اور قومی وقار کا تقاضہ
افغانستان میں نیٹو فوج کے امریکی کمانڈر جنرل پیٹریاس نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے اب تک متاثر کن آپریشن کئے ہیں تاہم قبائلی خطہ میں ابھی مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دریں اثناء صدر زرداری سے وزیراعظم گیلانی اور جنرل کیانی نے ملاقات کی۔ ٹرائیکا کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا وقت آیا ہے نہ دباؤ قبول کریں گے۔ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق آرمی چیف نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائی کے حوالے سے صدر اور وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔
امریکہ کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے پہلی بار مطالبہ کیا گیاتو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس کو یکسر مسترد کر دیا۔ بعد میں یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان خود آپریشن کا فیصلہ کرے گا کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے سخت رویے میں لچک پیدا ہو چکی ہے۔ امریکی ڈکٹیشن پر سوات اور بعدازاں جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہوا۔ شمالی وزیرستان میں بھی فوج موجود ہے۔ اب نئی بات سامنے آئی ہے کہ فوج شمالی وزیرستان میں ٹارگیٹڈ کارروائی کر رہی ہے یا کرنیوالی ہے اور اس مقصد کیلئے وہاں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ ایسا ہے تو پھر آپریشن میں کونسی کسر باقی رہ گئی ہے۔ ایک طرف فوج امریکی مطالبے پر قبائلی علاقہ جات میں آپریشن پر مامور ہے۔ دوسری طرف ڈرون حملے بھی پاکستان کی خود مختاری کو روندتے ہوئے بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ پاک بحریہ کے سربراہ نعمان بشیر نے ہر محب وطن پاکستانی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے ہیلی کاپٹر حملہ ہو‘ یا ڈرون دونوں ملکی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ عمران خان نے ان حملوں کو نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل کی زندہ مثال قرار دیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں اس کام میں سی آئی اے کو پاکستانی دوستوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔
عمران خان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ’’پاکستانی دوستوں‘‘ کی امریکیوں کو درپردہ نہیں کھلی حمایت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت صدر صاحب کا یہ کہنا کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا کوئی افسوس نہیں۔ پہلے تو ڈرون حملوں پر سرکاری سطح پر تھوڑا بہت احتجاج ہوتا تھا اب اس کا بھی تکلف نہیں کیا جاتا۔ قومی وقار کا تقاضا ہے کہ ڈومور کے تقاضوں کو بالکل رد کرتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں آپریشن کے مطالبے کو یکسر رد کر دیا جائے اور بحریہ کے چیف نے جو کہا وہی درست ہے۔ اس کے تناظر میں پاکستان کے علاقے میں داخل ہونے والے کسی بھی ڈرون اور ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جائے۔ پاک فضائیہ ایسا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے
پاکستان میں پرائمری تعلیمی معیار کے اعتبار سے 134 ممالک میں سے 117 نمبر پر ہے‘ جبکہ شرح خواندگی 49.9 بتائی جاتی ہے۔
کوئی بھی ملک اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا‘ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیمی کلچر پروان نہیں چڑھ سکا‘ اسکی سب سے بڑی وجہ سرکاری سطح پر اس شعبے کو بری طرح نظرانداز کرنا ہے۔ نہ صرف اس شعبے پر بہت کم خرچ کیا جاتا ہے بلکہ ہر سال تعلیم کے بجٹ میں کمی بھی کردی جاتی ہے۔ اوپر سے تعلیمی سسٹم میں 97 فیصد کرپشن موجود ہے۔ رپورٹس کے مطابق پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح 66 اور بچیوں کی اس سے نصف 33 فیصد ہے۔ اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم مہنگی ہے‘ تاہم ملکی شرح خواندگی میں اگر کوئی تھوڑی بہت بہتری ہے تو اسی سیکٹر کی بدولت ہے۔ اقتدار میں آنیوالے شرح خواندگی کو بلند ترین مقام پر پہنچانے کے دعوے ضرور کرتے ہیں‘ لیکن عمل نہیں ہوتا۔
پاکستان کے اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست ہونے کا ذکر سننے کو ملتا ہے جس میں تینوں چیزوں کا فقدان ہے۔ فلاحی ریاست میں تو تعلیم اور صحت کی سہولت بالکل فری ہونی چاہیے‘ عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ گو پرائمری تک تعلیم فری ہے‘ لیکن اس طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بچے عموماً تیسری اور چوتھی جماعت تک پہنچنے سے قبل بھاگ جاتے ہیں۔ اگر شروع سے تعلیم خصوصی طور پر تعلیمی بنیاد پر بھرپور توجہ مرکوز کی گئی ہوتی تو آج بے شمار عوامی نمائندے جعلی ڈگریوں پر پارلیمنٹ میں پہنچ کر تماشا بنتے‘ نہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس نظرانداز کئے گئے شعبے پر بھرپور توجہ مبذول کرتے ہوئے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرے اور اس شعبے میں ہونیوالی بدعنوانیوں پر سختی سے قابو پائے۔