خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آج پاکستان کو وجود پذیر ہوئے تقریباً 66 سال ہو گئے ہیں لیکن ہماری حالت پہلے بہتر تھی اور اب بدتر ہے اور اس ابتری میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے تو یہاں جمہوریت کو یعنی عوامی رائے کو پنپنے اور قائم ہونے کا موقع ہی نہیں ملا۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہمارا ملک چار مرتبہ مارشلاءکے زیر تسلط رہا ہے۔ جن کا دورانیہ کم از کم 33 سالوں پر محیط ہے اور ان سب فوجی آمروں نے ملک کا بیڑا ہی غرق کیا ہے۔ اور آج ہم توانائی کے بحران اور مہنگائی اور بیروزگاری اور مذہبی دہشت گردی جیسی مشکلات بلکہ آفات کا شکار ہیں۔کالا باغ ڈیم‘ جس کی فزیبلٹی تیار ہوئے بھی پندرہ برس ہو چکے ہیں‘ اسے ہمارے سیاست دانوں نے سیاسی ایشو بنا ڈالا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے لے کر موجودہ حکومت تک کسی نے بھی کالا باغ ڈیم بنانے پر توجہ نہیں دی اور چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں جنہیں علاقائی اور تانگہ پارٹیاں کہنا چاہئے جن میں اے این پی‘ جیئے بھٹو اور جئے سندھ وغیرہ شامل ہیں‘ کے ذرا سے احتجاج پر ہر حکومت خوفزدہ ہو کر کالا باغ ڈیم بنانے کا ارادہ ہی ترک کر دیتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے تو حکومت سنبھالتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ: ”کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باب بند ہو چکا۔“ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ادھر بھارت ہے کہ ہمارے دریا¶ں پر ڈیم پر ڈیم بنائے چلا جا رہا ہے اور ہم اس سے صرف زبانی احتجاج کر رہے ہیں۔ بھارتی حکمران تو محب وطن ہیں جو اپنی سرزمین کو زرخیز اور ملک کو توانائی سے مضبوط بنانے والے ہر پراجیکٹ پر سنجیدگی سے عمل کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں کو ملکی ترقی اور خوشحالی سے ایسی چڑ اور دشمنی ہے کہ اول تو اس کےلئے کسی پراجیکٹ پر سوچا ہی نہیں جاتا۔ اگر بہ فرض محال ایسا کوئی پراجیکٹ تیار ہو بھی جائے تو اس کی تعمیر کے راستے میں ”سیاسی مصلحت اندیشیاں“ مائل ہو جاتی ہیں۔ فخر صحافت جناب مجید نظامی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ”آئندہ پاک بھارت جنگ پانی پر ہو گی“ ہماری حکومت اگر واقعی محب وطن اور عوام دوست ہے تو فوراً کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر عملدرآمد شروع کروا دے کیونکہ اس سلسلے میں ادارہ ”نوائے وقت“ کا ریفرنڈم عوامی تائید و حمایت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر چاروں صوبے متفق و متحد ہیں۔ اس کےلئے مزید کسی ”الیکشن“ یا مشاورت کی ضرورت نہیں۔ دوسری بات متحدہ کے قائد الطاف حسین‘ مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق) متفقہ طور پر قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور ہر ڈیم کے مخالف کو غدار قرار دینے اور خصوصاً جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا بل پیش کریں اور اسے کثرت رائے سے منظور کروانے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ پاکستان میں کالا باغ ڈیم اور دیگر ڈیموں کی تعمیر رکوانے میں بھارت کا بھی ہاتھ ہے جس نے یہاں اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں جو ہر ڈیم کی تعمیر کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں اور بھارت سے اس کا بھاری معاوضہ لے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینک دیا جاتا‘ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔