اسلام آباد (ریڈیو مانیٹرنگ + وقت نیوز + وقائع نگار + ایجنسیاں) سینٹ میں پیپلز پارٹی ریفارمڈ جی ایس ٹی کے معاملے پر تنہا رہ گئی ہے‘ حکومتی اتحادی جے یو آئی (ف) نے بل کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم اور اے این پی نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس میں اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا اور عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو جائے گی‘ حکمران اپنی کرپشن ختم کر کے عوام کے لئے مثال قائم کریں‘ ملکی معاشی نظام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ سینٹ میں جنرل سیلز ٹیکس بل 2010ءپر قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر مشتمل رپورٹ بدھ کو پیش نہیں کی جا سکی۔ تفصیلات کے مطابق جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) کسی صورت سینٹ اور قومی اسمبلی میں ریفارمڈ جی ایس ٹی بل 2010ءکی حمایت یا تائید نہیں کرے گی بلکہ اس کے خلاف ووٹ دے گی۔ سینٹ میں نقطہ اعتراض پر مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی بل کی منظوری سے خودکشیاں ہوں گی۔ حکومت نے ریفارمڈ جی ایس ٹی بل پر اپنی کسی اتحادی کو اعتماد میں نہیں لیا۔ حاجی عدیل نے کہا کہ جب تک ہماری تجاویز کو بل کا حصہ نہیں بنایا جاتا یا حکومت ہمارے تحفظات اور خدشات دور نہیں کرتی ہمیں تفصیلی بریفنگ نہیں دی جاتی اس وقت تک ہم کسی صورت اس بل کی حمایت نہیں کر سکتے‘ ہمیں کوئی بریفنگ نہیں دی لہٰذا اس بل کی حمایت یا حق میں ووٹ دینے کا سوال قبل از وقت ہے۔ بل پر بحث کے دوران راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایوان میں بل کی مخالفت سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ مفاد پرستی اور سودے بازی کے حوالے سے نئے مطالبات آ جاتے ہیں‘ اگر کسی سیاسی جماعت کی طرف سے بل کی مخالفت کا اعلان کیا جاتا ہے تو پھر اپنے اعلانات کی پاسداری بھی کی جائے۔ غریب شکنجے میں آئیں گے‘ کارخانہ دار اور بڑے بڑے سرمایہ دار اس سے پھر بچ جائیں گے۔ چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے قائمہ کمیٹی کی بل سے متعلق سفارشات کو آج کیلئے م¶خر کر دیا۔ وسیم سجاد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ فنانس بل پہلے قومی اسمبلی سے منظور ہوتا ہے پھر غور کیلئے ایوان بالا میں آتا ہے ایوان بالا پہلے سے ٹیکسوں سے متعلق کوئی بل منظور نہیں کر سکتا آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت وفاق خود سے کوئی ٹیکس نہیں لگا سکتا اس کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ضروری ہے۔ بابر اعوان نے وضاحت کی کہ آئین کے آرٹیکل 73 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے ہم اس استثنیٰ کے تحت بل لا رہے ہیں سینٹ مالیاتی بل کے علاوہ کوئی بھی بل پہلے منظور کر سکتا ہے۔ اگر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ یہ منی فنانس بل ہے یا نہیں تو سپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے‘ اس پر چیئرمین سینٹ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا چیئرمین سینٹ اس میں شامل نہیں ہیں۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ آئین تو یہی کہتا ہے جس پر چیئرمین سینٹ نے اس معاملے پر رولنگ آج تک محفوظ کر لی۔ قبل ازیں رضا ربانی نے کہا کہ جی ایس ٹی صوبائی معاملہ ہے‘ 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومتیں مرکز کو اجازت دیں تو یہ بل منظور کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر یہ غیر آئینی اقدام ہو گا۔ راجہ ظفر الحق نے رضا ربانی کی حمایت کی اور کہا کہ وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ بل پاس کروانے کے لئے لوگوں کو منانے کراچی چلے گئے ہیں۔ آر جی ایس ٹی پر بحث کے دوران ایم کیو ایم کے عبدالخالق پیرزادہ نے کہا کہ تین کرپٹ وزرا اور چند کرپٹ افسروں کو شاہراہ دستور پر پھانسی دی جائے تو سارا نظام درست ہو جائے گا اور راوی سے سونے کی نہریں نکلیں گی۔ صرف ایک شعبے ایف بی آر میں تین سو ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ آر جی ایس ٹی بل وہ جماعت لا رہی ہے جس نے غریب عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا وعدہ کیا تھا‘ حکومت اس بل کو پاس کرنے کے لئے رشوت دے رہی ہے۔ نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو جائے گی۔ عظیم درانی نے کہا کہ آر جی ایس ٹی ٹیکس جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ وقت نیوز کے مطابق مسلم لیگ (ق)‘ مسلم لیگ (ن)‘ ایم کیو ایم‘ دیگر اتحادی جماعتوں نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میں بل کے خلاف ووٹ دینے کا بائیکاٹ کا امکان بھی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ریڈیو نیوز+ مانیٹرنگ نیوز+ ایجنسیاں) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا ہنگامی اجلاس گذشتہ روز چیئرمین احمد علی کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر اسلام الدین شیخ کے دعویٰ کے برعکس حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن نے ریفارمڈ جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج بلز کی قائمہ کمیٹی سے متفقہ منظوری سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، مسلم لیگ (ن)، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی نے اختلافی نوٹ جمع کرا دئیے اور مطالبہ کیا کہ حکومت اخراجات کم کرے جبکہ چیئرمین احمد علی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک اہم وزیر کے کہنے پر جان بوجھ کر اجلاس میں شرکت سے روکا گیا اور اس وزیر کے کہنے پر لندن سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں تاخیر کرائی گئی۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کس اتھارٹی کے تحت کمیٹی کے اراکین کو اجلاس میں شرکت کیلئے اطلاع کرتے رہے ۔ اجلاس کے دوران الیاس بلور نے بتایا کہ ہماری سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوا ہم اس کی مخالفت کرینگے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم آنکھیں بند کرکے اس بل کی منظوری نہیں دینگے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا اس بل سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہونگے ۔ وقار احمد خان نے بتایا کہ کمیٹی کے ممبران اجلاس میں بلانے کیلئے رحمان ملک کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی جس پر احمد علی نے کہا کہ رحمان ملک کون ہوتے ہیں کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کریں۔ کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں ممبران کو بتانا کمیٹی کا کام ہے۔ اسلام الدین شیخ نے بتایا کہ بل کا شق وار جائزہ لیا گیا ہے، جی ایس ٹی کے حوالے سے نو سفارشات اور فلڈ ٹیکس کے حوالے سے چار سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اجلاس کی صدارت کے بعد اس کو کیسے ختم کیا جاتا ہے ۔ گذشتہ روز اجلاس کو ختم کرنے سے یہ تاثر گیا کہ اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔ احمد علی نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ زرعی ٹیکس کو صدارتی فرمان کے تحت تین ماہ کیلئے لگایا جائے اور آر جی ایس ٹی بل کو نافذ کرنا ہے تو زیرو ریٹ ہونا چاہیے وگرنہ ایم کیو ایم اس بل کی سخت مخالفت کرے گی۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ کمیٹی کی رپورٹ ابھی آئی بھی نہیں ہے اور میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں کہ سینٹ کمیٹی نے دونوں بل منظور کر لئے ہیں، ہم تجاویز دینے کے بعد چلے گئے تھے ہمارے بعد منظوری دی گئی۔ مانیٹرنگ نیوز کے مطابق صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا اجلاس میں شرکت سے روکنے کے حوالے سے چیئرمین سینٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔ احمد علی نے وزیر کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ اجلاس کے دوران ایک رکن نے رحمن ملک کا نام لے لیا جس پر احمد علی سمیت تمام ارکان مسکرا دئیے۔ دریں اثناءوزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے آئی ایم ایف کو ریفارمڈ جی ایس ٹی لگانے کی ضمانت دے چکے ہیں، تمام صوبائی اسمبلیوں نے منظوری نہ دی تو ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلام آباد میں ٹی وی اینکرز کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس کے نفاذ کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں سے منظوری ضروری ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت ٹیکس کے نفاذ کی منظوری صوبوں کا حق ہے، تمام صوبائی اسمبلیوں کو قرارداد منظور کرانا ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریفارمڈ ٹیکس نہ لگایا گیا تو پاکستان میں آئی ایم ایف کے تمام پروگرام خطرے میں پڑ جائیں گے۔ دریں اثناءکمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ تمام جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور جو ترامیم ممکن ہوئیں وہ کی جائیں گی۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ جمعرات کو بل سینٹ میں پیش کر دیا جائیگا۔
اسلام آباد + کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک + ریڈیو مانیٹرنگ + وقت نیوز + سپیشل رپورٹ + ایجنسیاں) صدر آصف زرداری کی طرف سے گذشتہ روز تمام سینیٹرز کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا تاہم مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی اور سینٹ میں آزاد گروپ نے عشائیے کا بائیکاٹ کیا۔ صدر آصف زرداری نے خطاب میں واضح کیا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور غریبوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں۔ ادھر کراچی میں حکومتی نمائندوں اور ایم کیو ایم کے درمیان آر جی ایس ٹی کے معاملے پر 8 گھنٹے طویل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے اور ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ تفصیلات کے مطابق صدر زرداری کی طرف سے ایوان صدر میں دئیے گئے عشائیے میں پیپلز پارٹی‘ حکومت کی اتحادی جماعتوں اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق بعض جماعتوں کے سینیٹرز انفرادی فیصلے کے تحت بھی صدارتی عشائیے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان میں ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالخالق پیرزادہ بھی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 13 سینیٹرز نے صدر کے عشائیے کا بائیکاٹ کیا‘ چودھری شجاعت حسین نے بھی عشائیے میں شرکت نہیں کی اور معذرت کر لی۔ جے یو آئی (ف) کے خالد محمود سومرو بھی عشائیے میں نہیں گئے۔ صدر زرداری نے اس موقع پر کہا کہ ملک کا صاحب ثروت طبقہ سیلاب متاثرین کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہمیں بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدارتی ترجمان کے مطابق صدر کا سینیٹرز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ لوگوں کو تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو مشکلات اور چیلنجوں سے نکالنے کے لئے کام کریں۔ حکومت مالی و معاشی ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھاتی رہے گی اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترے گی۔ پیپلز پارٹی کو عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو پورا کریں گے اور ترقی و خوشحالی کی طرف ہمارا سفر جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب اور رکاوٹوں کے باوجود حکومت نے سیاسی و معاشی محاذوں پر کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت مفاہمت کی پالیسی جاری رکھے گی‘ عشائیہ میں ساٹھ سے زائد سینیٹرز نے شرکت کی۔ دریں اثناءایم کیو ایم اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے‘ پہلا دور ساڑھے 5 گھنٹے جاری رہا۔ حکومت کی طرف سے رحمن ملک اور حفیظ شیخ شامل تھے۔ حکومتی ٹیم ایم کیو ایم کو آر جی ایس ٹی کے نفاذ پر رضامند نہیں کر سکی۔ رات گئے گورنر ہا¶س کراچی میں ہونے والے مذاکرات میں بابر غوری‘ ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر نے متحدہ کی نمائندگی کی۔ فریقین نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات میں ایم کیو ایم کی طرف سے پیش کردہ چالیس نکاتی تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا‘ مذاکرات میں پٹرول اور بجلی کی قیمت میں کمی سمیت دیگر متعدد امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سپیشل رپورٹ کے مطابق ایوان صدر میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹروں نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کو موجودہ شکل میں قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے البتہ صدر کو تجویز دی ہے کہ وہ آر جی ایس ٹی میں اتحادی جماعتوں کی ترامیم کے بعد اسے ایوان میں منظوری کے لئے لائیں۔فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ نے بل کی مخالفت کی وجوہات سے آگاہ کیا اور 9 سفارشات اور متبادل تجاویز دیں۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگائے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں‘ ہم نے بال پیپلز پارٹی کی کورٹ میں پھینک دی ہے‘ اگر زرعی ٹیکس پر غور نہیں کیا گیا تو یہ ریفارمڈ جی ایس ٹی نہیں ہو گا۔ رحمن ملک نے کہا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں‘ دو تین روز میں پھر مذاکرات ہوں گے‘ حفیظ شیخ نے کہا کہ ایم کیو ایم کی تجاویز کا جائزہ لیں گے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ریڈیو نیوز+ مانیٹرنگ نیوز+ ایجنسیاں) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا ہنگامی اجلاس گذشتہ روز چیئرمین احمد علی کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر اسلام الدین شیخ کے دعویٰ کے برعکس حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن نے ریفارمڈ جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج بلز کی قائمہ کمیٹی سے متفقہ منظوری سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، مسلم لیگ (ن)، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی نے اختلافی نوٹ جمع کرا دئیے اور مطالبہ کیا کہ حکومت اخراجات کم کرے جبکہ چیئرمین احمد علی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک اہم وزیر کے کہنے پر جان بوجھ کر اجلاس میں شرکت سے روکا گیا اور اس وزیر کے کہنے پر لندن سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں تاخیر کرائی گئی۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کس اتھارٹی کے تحت کمیٹی کے اراکین کو اجلاس میں شرکت کیلئے اطلاع کرتے رہے ۔ اجلاس کے دوران الیاس بلور نے بتایا کہ ہماری سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوا ہم اس کی مخالفت کرینگے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم آنکھیں بند کرکے اس بل کی منظوری نہیں دینگے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا اس بل سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہونگے ۔ وقار احمد خان نے بتایا کہ کمیٹی کے ممبران اجلاس میں بلانے کیلئے رحمان ملک کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی جس پر احمد علی نے کہا کہ رحمان ملک کون ہوتے ہیں کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کریں۔ کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں ممبران کو بتانا کمیٹی کا کام ہے۔ اسلام الدین شیخ نے بتایا کہ بل کا شق وار جائزہ لیا گیا ہے، جی ایس ٹی کے حوالے سے نو سفارشات اور فلڈ ٹیکس کے حوالے سے چار سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اجلاس کی صدارت کے بعد اس کو کیسے ختم کیا جاتا ہے ۔ گذشتہ روز اجلاس کو ختم کرنے سے یہ تاثر گیا کہ اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔ احمد علی نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ زرعی ٹیکس کو صدارتی فرمان کے تحت تین ماہ کیلئے لگایا جائے اور آر جی ایس ٹی بل کو نافذ کرنا ہے تو زیرو ریٹ ہونا چاہیے وگرنہ ایم کیو ایم اس بل کی سخت مخالفت کرے گی۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ کمیٹی کی رپورٹ ابھی آئی بھی نہیں ہے اور میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں کہ سینٹ کمیٹی نے دونوں بل منظور کر لئے ہیں، ہم تجاویز دینے کے بعد چلے گئے تھے ہمارے بعد منظوری دی گئی۔ مانیٹرنگ نیوز کے مطابق صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا اجلاس میں شرکت سے روکنے کے حوالے سے چیئرمین سینٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔ احمد علی نے وزیر کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ اجلاس کے دوران ایک رکن نے رحمن ملک کا نام لے لیا جس پر احمد علی سمیت تمام ارکان مسکرا دئیے۔ دریں اثناءوزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے آئی ایم ایف کو ریفارمڈ جی ایس ٹی لگانے کی ضمانت دے چکے ہیں، تمام صوبائی اسمبلیوں نے منظوری نہ دی تو ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلام آباد میں ٹی وی اینکرز کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس کے نفاذ کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں سے منظوری ضروری ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت ٹیکس کے نفاذ کی منظوری صوبوں کا حق ہے، تمام صوبائی اسمبلیوں کو قرارداد منظور کرانا ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریفارمڈ ٹیکس نہ لگایا گیا تو پاکستان میں آئی ایم ایف کے تمام پروگرام خطرے میں پڑ جائیں گے۔ دریں اثناءکمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ تمام جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور جو ترامیم ممکن ہوئیں وہ کی جائیں گی۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ جمعرات کو بل سینٹ میں پیش کر دیا جائیگا۔
اسلام آباد + کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک + ریڈیو مانیٹرنگ + وقت نیوز + سپیشل رپورٹ + ایجنسیاں) صدر آصف زرداری کی طرف سے گذشتہ روز تمام سینیٹرز کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا تاہم مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی اور سینٹ میں آزاد گروپ نے عشائیے کا بائیکاٹ کیا۔ صدر آصف زرداری نے خطاب میں واضح کیا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور غریبوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں۔ ادھر کراچی میں حکومتی نمائندوں اور ایم کیو ایم کے درمیان آر جی ایس ٹی کے معاملے پر 8 گھنٹے طویل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے اور ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ تفصیلات کے مطابق صدر زرداری کی طرف سے ایوان صدر میں دئیے گئے عشائیے میں پیپلز پارٹی‘ حکومت کی اتحادی جماعتوں اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق بعض جماعتوں کے سینیٹرز انفرادی فیصلے کے تحت بھی صدارتی عشائیے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان میں ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالخالق پیرزادہ بھی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 13 سینیٹرز نے صدر کے عشائیے کا بائیکاٹ کیا‘ چودھری شجاعت حسین نے بھی عشائیے میں شرکت نہیں کی اور معذرت کر لی۔ جے یو آئی (ف) کے خالد محمود سومرو بھی عشائیے میں نہیں گئے۔ صدر زرداری نے اس موقع پر کہا کہ ملک کا صاحب ثروت طبقہ سیلاب متاثرین کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہمیں بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدارتی ترجمان کے مطابق صدر کا سینیٹرز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ لوگوں کو تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو مشکلات اور چیلنجوں سے نکالنے کے لئے کام کریں۔ حکومت مالی و معاشی ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھاتی رہے گی اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترے گی۔ پیپلز پارٹی کو عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو پورا کریں گے اور ترقی و خوشحالی کی طرف ہمارا سفر جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب اور رکاوٹوں کے باوجود حکومت نے سیاسی و معاشی محاذوں پر کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت مفاہمت کی پالیسی جاری رکھے گی‘ عشائیہ میں ساٹھ سے زائد سینیٹرز نے شرکت کی۔ دریں اثناءایم کیو ایم اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے‘ پہلا دور ساڑھے 5 گھنٹے جاری رہا۔ حکومت کی طرف سے رحمن ملک اور حفیظ شیخ شامل تھے۔ حکومتی ٹیم ایم کیو ایم کو آر جی ایس ٹی کے نفاذ پر رضامند نہیں کر سکی۔ رات گئے گورنر ہا¶س کراچی میں ہونے والے مذاکرات میں بابر غوری‘ ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر نے متحدہ کی نمائندگی کی۔ فریقین نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات میں ایم کیو ایم کی طرف سے پیش کردہ چالیس نکاتی تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا‘ مذاکرات میں پٹرول اور بجلی کی قیمت میں کمی سمیت دیگر متعدد امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سپیشل رپورٹ کے مطابق ایوان صدر میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹروں نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کو موجودہ شکل میں قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے البتہ صدر کو تجویز دی ہے کہ وہ آر جی ایس ٹی میں اتحادی جماعتوں کی ترامیم کے بعد اسے ایوان میں منظوری کے لئے لائیں۔فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ نے بل کی مخالفت کی وجوہات سے آگاہ کیا اور 9 سفارشات اور متبادل تجاویز دیں۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگائے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں‘ ہم نے بال پیپلز پارٹی کی کورٹ میں پھینک دی ہے‘ اگر زرعی ٹیکس پر غور نہیں کیا گیا تو یہ ریفارمڈ جی ایس ٹی نہیں ہو گا۔ رحمن ملک نے کہا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں‘ دو تین روز میں پھر مذاکرات ہوں گے‘ حفیظ شیخ نے کہا کہ ایم کیو ایم کی تجاویز کا جائزہ لیں گے۔