اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ریڈیو نیوز+ مانیٹرنگ نیوز+ ایجنسیاں) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا ہنگامی اجلاس گذشتہ روز چیئرمین احمد علی کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر اسلام الدین شیخ کے دعویٰ کے برعکس حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن نے ریفارمڈ جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج بلز کی قائمہ کمیٹی سے متفقہ منظوری سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، مسلم لیگ (ن)، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی نے اختلافی نوٹ جمع کرا دئیے اور مطالبہ کیا کہ حکومت اخراجات کم کرے جبکہ چیئرمین احمد علی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک اہم وزیر کے کہنے پر جان بوجھ کر اجلاس میں شرکت سے روکا گیا اور اس وزیر کے کہنے پر لندن سے اسلام آباد آنے والی پرواز میں تاخیر کرائی گئی۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کس اتھارٹی کے تحت کمیٹی کے اراکین کو اجلاس میں شرکت کیلئے اطلاع کرتے رہے ۔ اجلاس کے دوران الیاس بلور نے بتایا کہ ہماری سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوا ہم اس کی مخالفت کرینگے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم آنکھیں بند کرکے اس بل کی منظوری نہیں دینگے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا اس بل سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہونگے ۔ وقار احمد خان نے بتایا کہ کمیٹی کے ممبران اجلاس میں بلانے کیلئے رحمان ملک کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی جس پر احمد علی نے کہا کہ رحمان ملک کون ہوتے ہیں کمیٹی کے معاملات میں مداخلت کریں۔ کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں ممبران کو بتانا کمیٹی کا کام ہے۔ اسلام الدین شیخ نے بتایا کہ بل کا شق وار جائزہ لیا گیا ہے، جی ایس ٹی کے حوالے سے نو سفارشات اور فلڈ ٹیکس کے حوالے سے چار سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اجلاس کی صدارت کے بعد اس کو کیسے ختم کیا جاتا ہے ۔ گذشتہ روز اجلاس کو ختم کرنے سے یہ تاثر گیا کہ اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔ احمد علی نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ زرعی ٹیکس کو صدارتی فرمان کے تحت تین ماہ کیلئے لگایا جائے اور آر جی ایس ٹی بل کو نافذ کرنا ہے تو زیرو ریٹ ہونا چاہیے وگرنہ ایم کیو ایم اس بل کی سخت مخالفت کرے گی۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ کمیٹی کی رپورٹ ابھی آئی بھی نہیں ہے اور میڈیا میں خبریں آ رہی ہیں کہ سینٹ کمیٹی نے دونوں بل منظور کر لئے ہیں، ہم تجاویز دینے کے بعد چلے گئے تھے ہمارے بعد منظوری دی گئی۔ مانیٹرنگ نیوز کے مطابق صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا اجلاس میں شرکت سے روکنے کے حوالے سے چیئرمین سینٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔ احمد علی نے وزیر کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ اجلاس کے دوران ایک رکن نے رحمن ملک کا نام لے لیا جس پر احمد علی سمیت تمام ارکان مسکرا دئیے۔ دریں اثناءوزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے آئی ایم ایف کو ریفارمڈ جی ایس ٹی لگانے کی ضمانت دے چکے ہیں، تمام صوبائی اسمبلیوں نے منظوری نہ دی تو ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلام آباد میں ٹی وی اینکرز کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس کے نفاذ کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں سے منظوری ضروری ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت ٹیکس کے نفاذ کی منظوری صوبوں کا حق ہے، تمام صوبائی اسمبلیوں کو قرارداد منظور کرانا ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریفارمڈ ٹیکس نہ لگایا گیا تو پاکستان میں آئی ایم ایف کے تمام پروگرام خطرے میں پڑ جائیں گے۔ دریں اثناءکمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ تمام جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور جو ترامیم ممکن ہوئیں وہ کی جائیں گی۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ جمعرات کو بل سینٹ میں پیش کر دیا جائیگا۔
اسلام آباد + کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک + ریڈیو مانیٹرنگ + وقت نیوز + سپیشل رپورٹ + ایجنسیاں) صدر آصف زرداری کی طرف سے گذشتہ روز تمام سینیٹرز کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا تاہم مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی اور سینٹ میں آزاد گروپ نے عشائیے کا بائیکاٹ کیا۔ صدر آصف زرداری نے خطاب میں واضح کیا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور غریبوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں۔ ادھر کراچی میں حکومتی نمائندوں اور ایم کیو ایم کے درمیان آر جی ایس ٹی کے معاملے پر 8 گھنٹے طویل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے اور ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ تفصیلات کے مطابق صدر زرداری کی طرف سے ایوان صدر میں دئیے گئے عشائیے میں پیپلز پارٹی‘ حکومت کی اتحادی جماعتوں اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق بعض جماعتوں کے سینیٹرز انفرادی فیصلے کے تحت بھی صدارتی عشائیے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان میں ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالخالق پیرزادہ بھی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 13 سینیٹرز نے صدر کے عشائیے کا بائیکاٹ کیا‘ چودھری شجاعت حسین نے بھی عشائیے میں شرکت نہیں کی اور معذرت کر لی۔ جے یو آئی (ف) کے خالد محمود سومرو بھی عشائیے میں نہیں گئے۔ صدر زرداری نے اس موقع پر کہا کہ ملک کا صاحب ثروت طبقہ سیلاب متاثرین کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہمیں بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدارتی ترجمان کے مطابق صدر کا سینیٹرز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ لوگوں کو تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو مشکلات اور چیلنجوں سے نکالنے کے لئے کام کریں۔ حکومت مالی و معاشی ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھاتی رہے گی اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترے گی۔ پیپلز پارٹی کو عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو پورا کریں گے اور ترقی و خوشحالی کی طرف ہمارا سفر جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب اور رکاوٹوں کے باوجود حکومت نے سیاسی و معاشی محاذوں پر کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت مفاہمت کی پالیسی جاری رکھے گی‘ عشائیہ میں ساٹھ سے زائد سینیٹرز نے شرکت کی۔ دریں اثناءایم کیو ایم اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے‘ پہلا دور ساڑھے 5 گھنٹے جاری رہا۔ حکومت کی طرف سے رحمن ملک اور حفیظ شیخ شامل تھے۔ حکومتی ٹیم ایم کیو ایم کو آر جی ایس ٹی کے نفاذ پر رضامند نہیں کر سکی۔ رات گئے گورنر ہا¶س کراچی میں ہونے والے مذاکرات میں بابر غوری‘ ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر نے متحدہ کی نمائندگی کی۔ فریقین نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات میں ایم کیو ایم کی طرف سے پیش کردہ چالیس نکاتی تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا‘ مذاکرات میں پٹرول اور بجلی کی قیمت میں کمی سمیت دیگر متعدد امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سپیشل رپورٹ کے مطابق ایوان صدر میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹروں نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کو موجودہ شکل میں قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے البتہ صدر کو تجویز دی ہے کہ وہ آر جی ایس ٹی میں اتحادی جماعتوں کی ترامیم کے بعد اسے ایوان میں منظوری کے لئے لائیں۔فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ نے بل کی مخالفت کی وجوہات سے آگاہ کیا اور 9 سفارشات اور متبادل تجاویز دیں۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگائے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں‘ ہم نے بال پیپلز پارٹی کی کورٹ میں پھینک دی ہے‘ اگر زرعی ٹیکس پر غور نہیں کیا گیا تو یہ ریفارمڈ جی ایس ٹی نہیں ہو گا۔ رحمن ملک نے کہا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک نہیں‘ دو تین روز میں پھر مذاکرات ہوں گے‘ حفیظ شیخ نے کہا کہ ایم کیو ایم کی تجاویز کا جائزہ لیں گے۔