”جیلوں میں رشوت کا بازار گرم، غریبوں کے گھر تک فروخت ہو جاتے ہیں“

لاہور (رپورٹ: محمد اعظم چودھری) حکومت کی عدم توجہی اور سیاسی مداخلت کے باعث محکمہ جیل خانہ جات کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ محکمہ کے اکثر افسروں اور ملازمین نے محض نفسانی خواہشات کی خاطر جیلوں کو عقوبت خانے بنا رکھا ہے جہاں پیسے خرچ کرنے والے قیدیوں کو تو وی آئی پی سہولتیں میسر ہیں جبکہ غریب قیدی حیوانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق قیدیوں سے کروڑوں روپے ماہانہ رشوت اکٹھی کی جاتی ہے۔ بقول ذرائع کے اس منتھلی کے حصے محکمہ جیل خانہ جات کے ”اوپر“ تک کے افسروں میں تقسیم کئے جاتے ہیں صرف لاہور کی کیمپ جیل میں ماہانہ 60 سے 70 لاکھ روپے اکٹھے کئے جاتے ہیں جن میں سے آدھی سے زائد رقم افسروں اور نچلے سٹاف میں تقسیم ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈیوٹی بک سے 30 ہزار روپے، سکیننگ مشین تلاشی سے 50 ہزار، جیل کے اندر بوہڑ تلے تلاشی سے 3 لاکھ 70 ہزار روپے، چیف چیکر سے 2 لاکھ 70 ہزار روپے، چیکر منشی سے ایک لاکھ روپے نیو جیل چیف چیکر سے ایک لاکھ روپے، بیرک نمبر ایک تا 6 سے 25 ہزار روپے فی بیرک، بیرک نمبر 9/A، 10/A اور 10/B سے 15 ہزار روپے فی بیرک، بلاک نمبر ایک تا 4 سے 25 ہزار روپے فی بلاک، بلاک نمبر 5 اور 6 سے 15 ہزار روپے فی بلاک، بیرک نمبر گیارہ نو عمر وارڈ سے 5 ہزار روپے، بیرک نمبر 12/A سے 20 ہزار روپے، بیرک نمبر 12/B سے 10 ہزار روپے، بیرک 13 اور 14 سے 15 ہزار روپے فی بیرک منشیات کے ڈیلروں والی بیرک 15 اور 16 سے 50 ہزار روپے، بیرک 17/A اور 17/B سے 10 ہزار روپے فی بیرک، 17/H ہسپتال سے 10 ہزار روپے، 40 چکی قصوری بلاک سے ایک لاکھ روپے، 6 چکی قصوری بلاک سے 15 ہزار روپے، ہسپتال وارڈ سے 10 ہزار روپے، وارنٹ آفس حوالات سے ایک لاکھ روپے وارنٹ آفس قیدیاں سے 50 ہزار روپے، غلہ گودام سے ساڑھے تین لاکھ روپے، کینٹین سے 5 لاکھ روپے ہیڈ کلرک سے ایک لاکھ روپے، وکالت نامہ برانچ سے 15 ہزار روپے، ملاقات لکھنے والوں سے 20 ہزار روپے، اندرون شیڈ سے 50 ہزار روپے، بیرون شیڈ سے 20 ہزار روپے، پروٹوکول والوں سے 40 ہزار روپے ماہانہ وصول کئے جاتے ہیں۔ افسر نے اس رقم کی وصولی کیلئے اپنے کار خاص لگا رکھے ہیں۔ بڑے افسر سے آدھی رقم چھوٹا افسر اپنے کار خاص کے ذریعے اکٹھی کرتا ہے اس سے تیرا حصہ اس سے چھوٹا افسر اور اتنی ہی رقم ایک اور افسر اکٹھی کرتا ہے جبکہ نچلے سٹاف کی لوٹ مار اس کے علاوہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل ملازمین باقاعدہ جونک کی طرح قیدیوں کا خون چوستے ہیں۔ امیروں کو ہر سہولت میسر ہوتی ہے جبکہ غریب قیدی گھر تک بیچ کر جیل حکام کو دیتے ہیں۔ ان شکایات کے پیش نظر جب کسی افسر کا تبادلہ ہوتا ہے تو سیاسی مداخلت شروع ہو جاتی ہے۔ چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی جیل خانہ جات ندیم کوکب وڑائچ کو تبدیل کیا تو چند گھنٹے میں ہی وزیراعلیٰ کو سیاسی مداخلت کے باعث اپنے احکامات تبدیل کرنا پڑے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس کے علاوہ جیلوں کے فنڈز میں بھی وسیع پیمانے پر خوردبرد کی جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...