محرم الحرام میں دشمن کے ”دھماکے“

وہ ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ محرم الحرام کا ماہ مقدس مہینہ رواں دواں ہے اور بروز اتوار عاشورہ محرم ہو گا۔ اس ضمن میں سیکورٹی انتظامات کو یقینی بنانے کے لئے ملک بھر میں پولیس رینجرز، آرمی اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈیوٹیاں تفویض کر دی گئی ہیں۔ حساس اور بڑے شہروں میں رینجرز کے دستے پولیس اہلکاروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ فلیگ مارچ کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے وزیرداخلہ رحمن ملک سیکورٹی کے انتظامات کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنانے کے دعوے کرتے ہوئے کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ عاشورہ محرم پر موبائل سروس معطل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہی کچھ ہو رہا ہے جس کے سنگین خدشات موجود تھے۔ دشمن ایک مرتبہ پھر اپنی چال چلنے میں کامیاب ہو رہا ہے جس کا ثبوت اس نے گذشتہ روز کراچی، راولپنڈی اور کوئٹہ میں بم دھماکوں کی صورت میں دیا۔ کراچی میں اورنگی ٹا¶ن نمبر5 میں امام بارگاہ کے قریب یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جس میں پانچ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ ان میں صحافی، رینجرز، ریسکیو اہلکار اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ راولپنڈی میں ڈھوک سیداں کے قریب ایک امام بارگاہ کے نزدیک دھماکے سے دس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں تین اہلکاروں سمیت سات افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور پندرہ سے زائد شدید زخمی ہو گئے۔ آخر ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ فرقہ واریت دشمنان اسلام کا وہ شوشہ ہے جسے وہ ہر دور میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب انگریز نے اپنی طاقت کے ذریعے بھی کامیابی حاصل نہ کی اور وہ ناکام ہوا تو اس نے ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی پر عمل کیا۔ اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ آج ہم کئی گروہوںمیں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے اندر سے لوگوںکو خریدتا رہا ہے اور آج تک یہ بھیانک سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے گروہی اختلافات کی بناءپر کئی گروہ تشکیل دے لئے اور آج ستم بالائے ستم صورتحال یہ ہے کہ محرم الحرام کے عظیم جانثاری اور قربانی کے ماہ مقدس میں ہرطرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈیوٹیاں اس انداز میں لگائی جا رہی ہیں جیسے کسی ایمرجنسی یا کرفیو کا سماں ہو۔ دہشت گردی کی جنگ ہماری اپنی نہیں بلکہ وہ آگ ہے جو امریکہ نے ہمارے ملک میں سابق صدر اور بدترین آمر جنرل(ر) پرویزمشرف کے ذریعے لگائی۔ اس آگ کو بجھانے کے لئے پیپلزپارٹی کے موجودہ حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کے موجودہ حکمران بھی پرویزمشرف حکومت کی کاربن کاپی سے زیادہ ثابت نہ ہوئے اور اس حکومت کے دوراقتدار کے دوران بھی ہم افغانستان میں امریکی جنگ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے رہے۔ ہمارے قبائلی اور شمالی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کی بارش ہوتی رہی۔ نہتے اور بے گناہ شہری لقمہ اجل بنتے رہے۔ ہر طرف خوف و ہراس کا سماں رہا۔ ایسی چومکھی جنگ اور کیفیت جاری ہے کہ ہرطرف ایک ہیجان برپا ہے اور اسی ہیجان کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بھی وقت دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ کراچی جو دشت و خون میں ڈوبا ہوا ہے وہاں امام بارگاہ کے قریب اورنگی ٹا¶ن نمبر5 میں یکے بعد دو بم دھماکوں نے پورے ملک کے ماحول کو سوگوار کر دیا۔ ہر طرف خوف پھیل گیا اور لوگ یہی سوال کرتے رہے کہ آخر ہمارا مستقبل کیا ہے اور ہمارا کیا بنے گا۔ راولپنڈی میں بھی امام بارگاہ کے قریب دھماکہ کیا گیا یعنی دشمن ملک بھر میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر ایک ایسی لڑائی کو چھیڑنا چاہتے ہیں جس سے ہرطرف افراتفری، بدامنی اور خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو سکے۔ گذشتہ کم و بیش آٹھ نو ماہ سے ملک بھر میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کےلئے متعدد سانحات رونما کئے جا چکے ہیں۔ کوئٹہ، بلوچستان میں مسلسل لسانیت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازشیں جاری ہیں۔ کراچی میں مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام اور اب محرم الحرام میں اہل تشیع احباب کو نشانہ بنانے کی سازشیں سامنے آ رہی ہیں۔ کئی واقعات میں بسوں سے افراد کو اتار کر ان کی مخصوص گروہ کے حوالے سے نشاندہی کے بعد ان کو ایک قطار میں کھڑا کر کے مخصوص انداز میں قتل کیا جا چکا ہے۔ وزیرداخلہ رحمن ملک اپنے ہی بیانات میں متعدد مرتبہ فرما چکے ہیں کہ بلوچستان کے حالات میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہیں انہوں نے ایک مرتبہ کراچی کے بارے میں بھی یہی فرمان جاری کیا تھا لیکن وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ایک طرف ملک بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کئے جانے کے باوجود نہ صرف وفاقی حکومت کی طرف سے ایسے خدشات کا اظہار کئے جانے کے باوجود ایسے غیرملکی ہاتھوں کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی بلکہ ہماری قانون نافذ کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کے مختلف اداروں کی آراءاور رپورٹ بھی مختلف ہوتی ہیں۔ کم از کم ہمیں اس وقت جب کہ ملک انتہائی نازک اور حساس ترین وقت سے گزرتے ہوئے ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران کی سوچ اور آراءمیں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے ایک متوازن لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ دشمن آج فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتا ہے اور اسی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جو جنگ ہماری نہیں۔ خدارا ہمارے حکمران اب تو امریکہ کی اس جنگ سے باہر نکلیں۔ امریکی ڈالروں کی ہوس اورسحر سے باہر نکلتے ہوئے اس ملک کو بچانے، اسکی عوام کے تحفظ اور بقاءکے لئے ایسی پالیسیاں اپنائیں جس کے لئے یہ ملک قائم کیا گیا تھا۔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دس لاکھ سے زائدما¶ں بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا جس کا مقصد اس ملک کو جدید اسلامی فلاحی مملکت بنانا تھا جہاں ہر مذہب اور گروہ کے افراد آزادانہ زندگی بسر کر سکیں مگر دشمن ہمیں گروہی اختلافات میں مبتلا کر کے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے درپر ہے اور ہم اپنے مخصوص مفادات کی خاطر مزید گروہ بنا کر تعصب کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماءکرام، مشائخ، دانشور اور اساتذہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور حکومت کو مجبور کرتے ہوئے اس نہج پر لایا جائے کہ وہ اپنی داخلی و خارجی پالیسیاں امریکہ سے حاصل کرنے کی بجائے عوام کی خواہشات کے عین مطابق تشکیل دیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سوچیں کہ دشمنوں کا ہدف صرف پاکستان اور عوام نہیں بلکہ وہ بھی ہیں جیسے کوئٹہ میں ایف سی کے اہلکاروںکو نشانہ بنایا گیا۔ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تو پاکستان کےلئے ہیں اور ان اداروں میںموجود لوگ پاکستانی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن