روزنامہ نوائے وقت میں مکہ معظمہ میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اور پاکستان کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی ملاقات کی تصویر نے سوچ کے دھاروں کو ایک خاص رخ دیدیا۔ یہ محترم خاتون جو مسلمانوں کے ملک کی وزیراعظم ہے روضہ مقدس میں عمرہ کے لئے آئی ہو گی۔ کعبہ میں رب کعبہ کے حضور سجدہ ریز ہوئی ہو گی۔ رحمتہ اللعالمینؐ کے روضہ پر حاضری دی ہو گی۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہو گی۔ دل و دماغ پر رقت طاری کر دینے والے لمحوں میں انسان لاشعوری طور پر بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرتا ہے۔ انسان سوچتا ہے اس سے کون سے گناہ سرزد ہوئے وہ کن غلطیوں اور کوتاہیوں کا مرتکب ہوا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی زندگی کی لغزشوں پر اظہار ندامت کیلئے اشکوں سے چراغ روشن کرتا ہے اور اس روشنی میں اپنے اعمال کا جائزہ لیتا اور استغفار کرتا ہے اور آئندہ ایسی زندگی کی دعا کے ساتھ عزم کرتا ہے جو صراط مستقیم کی زندگی ہے۔ کیا حسینہ واجد کو بھی ان لمحات میں جو انسان کو نہ جانے کب قسمت سے ہی ملتے ہیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنے کا موقع ملا ہو گا۔ قرآن و حدیث میں ظلم کرنیوالوں کے حوالے سے جو وعید بار بار دہرائی گئی ہے کیا بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے دل و دماغ میں یہ سوچ کر اضطراب کی کوئی لہر اٹھی ہو گی۔ آج بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے کیا حسینہ واجد نے اس کا بھی جائزہ بھی لیا ہو گا کہ یہ سب ظلم کے زمرے میں تو نہیں آ رہا ۔ حسینہ واجد نے کیا سوچا، کیا جائزہ لیا اور در رب مصطفی او در مصطفی سے کیا مانگا یہ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اور خود ہی جانتی ہیں بنگلہ دیش اور پاکستان کی ان دو اعلیٰ شخصیات کی ملاقات سے ذہن میں یہ خیال ضرور کلبلایا کہ یہ جو جماعت اسلامی کے 90اور 80سالہ بزرگوں کو عمر قید اور پھانسیوں کی سزا دی جا رہی ہے ان سے کون سا جرم سرزد ہوا ہے۔ اس کا جواب حکومت کی جانب سے عائد کردہ فرد جرم میں تلاش کیا جا سکتا ہے جس کے مطابق انہوں نے 1971ء میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دینے والی پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ تب وہ اتنے ہی پاکستانی تھے جتنا پاکستانی حسینہ واجد کا باپ شیخ مجیب الرحمن تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ وطن سے غداری کر رہا تھا۔ چند لمحوں کیلئے تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستان کی فوج نے عوامی لیگ کے حامیوں اور بالخصوص بنگالیوں پر اتنا ظلم کیا ان کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے کہ آج بنگلہ دیش نامی ملک میں ایک بنگالی نہیں ملتا تو پھر ایسی فوج رکھنے والے ملک پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کا کیا جواز ہے۔ ایسے ملک کے دورے کرنے کیوں ضروری ہیں اور خود شیخ مجیب الرحمن اس لحاظ سے بنگالیوں کا مجرم نہیں ہے کہ لاہور آ کر اسی ’’قاتل فوج‘‘ کی سلامی قبول کرتا ہے اور پاکستان کے دورے پر خود حسینہ واجد بھی اگر ایسی فوج کی عزت افزائی قبول کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس فوج کیلئے دل و دماغ میں کسی طرح کی کدورت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بھارت کی فوج کی جانب سے گارڈ آف آنر کیوں قبول کیا جاتا ہے جبکہ وہ دشمن ملک ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض بین الاقوامی سفارتی رسومات کے حوالے سے ایک رسمی کارروائی ہے۔ ’’دشمنی‘‘ اپنی جگہ قائم ہے۔ بھارت میں خواہ کسی جماعت کی حکومت آ جائے پاکستان سے دشمنی کا خاتمہ نہیں ہو گا کیونکہ اس دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر اپنی جگہ موجود ہے جبکہ بنگلہ دیش میں نیشنلسٹ پارٹی کی خالدہ ضیا کی حکومت آئے تو دونوں ملکوں میں پرخلوص دوستی اور خیرسگالی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ خیرسگالی کی فضا دھندلا ضرور جاتی ہے مگر دشمنی کا دور دور تک شائبہ تک نہیں دیکھا جا سکتا۔ ویسے بھی جب شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم کئے یہ پاکستان پر اور پاکستانی فوج کے حوالے سے دشمنی اور تحفظات کو پس پشت ڈالنے کے مترادف تھا تو اس پاکستان سے وفاداری کا اظہار کرنے والوں کیلئے پھانسیوں اور عمر قید کی سزائوں کا کیا جواز ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج بھارت بنگلہ دیش پر حملہ کر دے بنگلہ دیش کے جو لوگ اپنے وطن کے دفاع و سلامتی کیلئے بنگلہ دیشی فوج کا ساتھ دیں کیا کل ان کا یہ عمل ناقابل معافی جرم بن جائیگا۔ کیا جماعت اسلامی کے لوگوں کا عمل اس سے مختلف تھا۔