تکمیل پاکستان کے لیے مرد ِمجاہد کی ضرورت ہے

Nov 24, 2013

نعیم احمد

پاکستان وفا پرستوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ اسکے ازلی دشمن بھارت نے1971ء میں اسے دولخت کر دیا۔ تب پورے مغربی پاکستان کے گلی کوچے ماتم کدوں میں تبدیل ہو گئے۔ جس پاک فوج نے 1965ء میں عوام کی پشتیبانی کے طفیل دشمن کے دانت کھٹے کر دیے تھے‘اُسی دشمن کے سامنے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اُسے ہتھیار ڈالتے دیکھ کر کئی پاکستانی صدمے سے چل بسے تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک سانحہ تھا جس نے محب وطن پاکستانیوں کو زندہ درگور اور عالم اسلام کو مغموم کر کے رکھ دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ (آسام) کے سابق جنرل سیکرٹری اور حکومت پاکستان کے تاحیات وفاقی وزیر محمود علی مرحوم  کا شمار ان وفا شعار پاکستانیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو کبھی قبول نہ کیااور اپنی باقی ماندہ زندگی پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوئوں کو از سر نو جوڑنے کی جدوجہدمیں گزار دی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اسلام آباد کو اپنا مسکن بنالیا۔ اگر کبھی کسی نے پوچھا کہ کیا سلہٹ میں اپنے آبائی گھر کی یاد نہیں ستاتی، وہاں جانے کو جی نہیں کرتا؟تو کہتے کہ یاد تو بہت آتی ہے مگر جب بنگلہ دیش از سر نومشرقی پاکستان کے طور پر پاکستان کا حصہ بن جائیگا، تب وہاں جائوں گا۔ با کمال لوگوں کی محبت اور وفا شعاری بھی درجۂ کمال کی ہوتی ہے۔ کہا کرتے تھے’’میں اپنے سبز پاکستانی پاسپورٹ پر ’’بنگلہ دیش‘‘ کے الفاظ کی مہر لگوا کر اسے خراب نہیں کرنا چاہتا۔ 17نومبر2006ء کو لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور آپکی زبان سے ادا شدہ آخری الفاظ یہ تھے کہ ’’ہم کشمیر پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔‘‘ کشمیر اور مشرقی پاکستان کو از سر نو اس مملکت خداداد کا حصہ بنانے کی خاطر انہوں نے تحریک تکمیل پاکستان کی داغ بیل ڈالی تھی۔ وہ تحریک خود کفالت کے بھی بانی تھے کیونکہ صدق دل سے سمجھتے تھے کہ خود کفالت کی منزل حاصل کیے بغیر پاکستانی قوم اپنی خودداری اور حاکمیت اعلیٰ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ تحریک پاکستان کے اس بے لوث رہنما کی ساتویں برسی کے سلسلے میں      نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست منعقد کی جس کی صدارت ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کی۔ اس نشست میں شرکت کیلئے محمود علی مرحوم کے کزن انجینئر مشرف مشتاق علی اور ان کی اہلیہ سلینا علی بطور خاص لندن سے تشریف لائے تھے۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے خطاب کے دوران ماضی کے دریچوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ میں بنگلہ دیش بننے سے قبل محمود علی مرحوم کا آبائی علاقہ سلہٹ دیکھ چکا تھا۔ وہاں سے میرے ایک دوست نورمن اللہ کاکا خیل ہر سال باقاعدگی سے لاہور تشریف لایا کرتے تھے‘جو بعد میں سرتاج عزیز کے بہنوئی بھی بن گئے۔ محمود علی‘ نور الامین اور راجہ تری دیو رائے ہمارے ایسے بنگالی بھائی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت پاکستان نے بھی ان شخصیات کی پذیرائی کی اور جناب محمود علی کو تاحیات وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز کر دیا۔ میں جب بھی اسلام آباد جاتا، ان کے دولت کدے پر حاضری دیتاا ور ان کے ہمراہ چائے نوش کرتا۔ ان کا گھر سرتاج عزیز کے گھر کے تقریباً بالمقابل تھا۔ گفتگو کے دوران انہیں ہمیشہ پاکستان کے حق میں پایا۔ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے ازسر نو اتحاد کے متمنی تھے۔ اگر ربِ کریم ہمیں محمود علی جیسے دوچار مزید بنگالی بھائی عطا فرما دیتا تو شاید ہمارا مشرقی بازو کبھی ہم سے الگ نہ ہوتا۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے تأسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے ہماری شہ رگ کشمیر بھی ہمارے ازلی دشمن بھارت کے قبضے میں ہے۔ اگرچہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن بزدل اور کمزور مسلمان ثابت ہوئے ہیں۔ قابل غور امر ہے کہ جب ہم اپنی شہ رگ دشمن کی گرفت سے آزاد نہیں کروا پا رہے تو کٹا ہوا مشرقی بازو کیسے دوبارہ حاصل کرسکیں گے۔ انہوں نے حاضرین میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دو قومی نظریے پر ایمان کی حد تک یقین رکھیں۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں غربت، مہنگائی اور دیگر مسائل موجود ہیں تاہم پاکستان کی بدولت ہم آزاد ہیں اور میرے نزدیک آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے ۔آپ تکمیل پاکستان کو اپنا نصب العین بنا لیں ۔ عہد کریںکہ بنگلہ دیش کو بھی دوبارہ پاکستان کا حصہ بنانا ہے اور کشمیر کو بھی واپس لینا ہے۔ ایٹم بم اور میزائل کوئی معمولی چیز نہیں ہیں بشرطیکہ یہ کسی مرد کے ہاتھ میں ہوں اور وہ انہیں استعمال کرنے کے لیے درکار قوت فیصلہ کا بھی حامل ہو۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے انجینئر مشرف مشتاق علی اور ان کے لندن میں مقیم دوستوں کا بالخصوص شکریہ ادا کیا جنہوں نے محمود علی مرحوم کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ساڑھے پینتالیس لاکھ کاعطیہ فراہم کیا ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ہم نے اس مقصد کیلئے’’ پاکستان بنگلہ دیش برادر ہڈ سوسائٹی ‘‘بنائی ہے۔ 
چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد نے اپنے خطاب میں اصول پرستی اور اخلاق حسنہ کو محمود علی مرحوم کی شخصیت کے خاص اوصاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ہم بے مثال کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ انجینئر مشرف مشتاق علی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ محمود علی مرحوم کی یاد میں اس نشست کے انعقاد پر میں محترم ڈاکٹر مجید نظامی اور ان کے رفقاء کا بے حد ممنون ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ پاکستان کو از سر نو متحد بنانے کا میرے بھائی کا وژن ضرور پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے نشست کی نظامت کے فرائض ادا کرنے کے دوران بتایا کہ محترم ڈاکٹر مجید نظامی کی کوششوں کی بدولت ہی محمود علی چیئر کا قیام عمل میں آیا ہے اوراس کیلئے ہم پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کے بھی بہت شکر گزار ہیں۔ نشست سے بریگیڈیئر(ر) محمد اقبال شفیع ، کرنل (ر) راجہ سلطان ظہور اختر کیانی، بیگم مہناز رفیع اور پروفیسر مظہر عالم نے بھی خطاب کیا۔ نشست کے اختتام پر محمود علی مرحوم کے متعلق ممتاز کالم نگار اثر چوہان کی نظم سنائی گئی جس کے بعد مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ تحریک پاکستان کے کارکن کرنل (ر) راجہ سلطان ظہور اختر کیانی کی صاحبزادی محترمہ عائشہ زی خان نے اپنی انگریزی شاعری کی کتاب’’Building Bridges‘‘ محترم ڈاکٹر مجید نظامی کو پیش کی‘ جسے 2012ء میں سارک ادبی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ 

مزیدخبریں