چند ماہ قبل کوئٹہ کے شورش زدہ حالات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی طرف سے کوئٹہ رجسٹری میں جا کر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے سے پہلے یہ بات اظہرمن الشمس ہو چکی ہے کہ کوئٹہ کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد اور انکی بازیابی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے پانچ سال گزار دیئے۔ بلوچستان کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا۔ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک بلوچستان کے حالات میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہونے کا راگ الاپتے رہے۔ ناراض بلوچ رہنماؤں کو وطن واپس آنے کی پیشکش اور غیرمشروط طور پر ان پر قائم مقدمات ختم کرنے کے اعلانات ہوتے رہے مگر عملاً کچھ نہیں کیا گیا اور نتیجتاً بلوچستان کے حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی نوید سنانے کے ساتھ ہی گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل کرنے اور اسے مکمل طور پر آپریٹو کرنے کے معاہدے کئے تھے جس کے بعد بلوچستان کے حالات مزید شورش زدہ ہونے لگے۔ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ گوادر بندرگاہ کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر بہت ساری عالمی طاقتیں بلوچستان کے حالات میں بگاڑ پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے۔
گوادر بندرگاہ کے معاہدے کا اعلان سامنے آنے کے بعد بلوچستان کے اندر ایک مخصوص فرقے کو ٹارگٹ کئے جانے لگا۔ کئی سو افراد دہشت گردی کی آگ کی نذر ہو گئے۔ پھر گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مسلم لیگ(ن) ملک بھر میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت لیکر کامیاب ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب اور وفاق میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی نے اپنی صوبائی حکومت قائم کی۔ صوبہ خیبر پی کے میں نوازشریف نے کہا کہ ہم عمران خان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور اس طرح سے صوبہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی وغیرہ کے ساتھ اپنی صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بلوچستان میں وفاقی حکومت نے بلوچ رہنماؤں پر مشتمل صوبائی حکومت قائم کروا دی۔ بلوچستان کی حکومت قائم ہونے کے کئی ہفتوں بعد صوبائی کابینہ معرض وجود میں آئی جس سے اس دورانیے میں بلوچستان کے حالات ابتر ہوتے چلے گئے۔ بلوچستان میں آگ پرویزمشرف کے دوراقتدار کے دوران بھڑکا دی گئی تھی۔ بلوچستان وطن عزیز کا معدنیات سے مالامال اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ بدقسمت صوبہ ہے جس کی جغرافیائی حیثیت کو بھی نظرانداز کر کے کسی بھی دور میں بلوچستان کی ترقی اور بلوچ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے کوئی بھی فلاح و بہبود اور میگا ترقیاتی پراجیکٹ سامنے نہیں آ سکا۔
پرویزمشرف نے جب بلوچستان میں اپنی آمرانہ پالیسیوں کے زیرسایہ مداخلت شروع کی تو بلوچ رہنماؤں کے پرویزمشرف کیساتھ اختلافات شروع ہو گئے۔ پرویزمشرف کے اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ ایک موقع پر بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا جس کے بعد بلوچستان کے اندر لاپتہ افراد کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی اور بلوچستان کا وفاق کے ساتھ رشتہ کمزور ہونے لگا۔ بلوچستان کے اندر حکومت کیخلاف غیرملکی طاقتوں بالخصوص بھارت کو اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں شورش زدہ حالات نے کامیابی فراہم کرنی شروع کر دی۔ اس وقت بلوچستان کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ وہ بلوچستان جو ماضی قریب میں میاں محمد نوازشریف کی طرف دیکھتا تھا اس بلوچستان کی فلاح و بہبود اور حالات کی اصلاح و احوال کیلئے وفاقی حکومت کے اقدامات غیرتسلی بخش اور نامناسب نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان سے اٹھارہ ہزار سے زائد افراد آج بھی لاپتہ ہیں۔ روزانہ مسخ شدہ لاشیں آج بھی مل رہی ہیں۔ اب تک چھ سو سے زائد افراد بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں دونوں کچھ نہیں کر رہیں۔ اسی لئے جمعرات کے روز(27اکتوبر) سے کوئٹہ پریس کلب سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ اس لانگ مارچ نے 595کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد 26روز بعد 21نومبر کو کراچی کی حدود میں اپنے قدم رکھے ہیں۔ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پیدل چلنے والے اس قافلے میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں مگر وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے علاوہ سندھ کی صوبائی حکومت بھی ان کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے کیلئے آگے نہیں بڑھ سکی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ آج بھی بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا سلسلہ تو جاری ہے، سب جانتے ہیں گذشتہ دو روز کے دوران کوئٹہ میں بم دھماکے ہوتے رہے ہیں۔ ایک موٹرسائیکل پر نصب بم دھماکے سے پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد زندگی کی بازی بھی ہار چکے ہیں جبکہ 35افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل اور بحران حل کرنا کیا سابقہ حکومتوں اور حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں۔
گوادر بندرگاہ کے منصوبے کی ابتداء میاں محمد نوازشریف نے اپنے سابقہ دوراقتدار کے دوران کی تھی کیا وہ اس منصوبے کو بلوچستان کے حالات پرفضا اور سازگار بنا کر مکمل کرنے کی سعی نہیں کرینگے۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی تاحال ایک حل طلب معمہ بنی ہوئی ہے۔ میاں محمد نوازشریف کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے حالات پر خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایف سی پر بھی کئی الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایف سی کا دامن اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے گریبان بھی متاثرین کے الزامات کی زد میں ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ خصوصی طور پر بلوچستان کا دورہ کریں اور ہر ماہ کم از کم چند روز بلوچستان میں گزاریں اور بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو آئین اور قانون کے تابع کرتے ہوئے اس طرح متحرک کریں کہ ان کا ہونا ریاست کے موجود ہونے کا ثبوت فراہم کرے اور بھارت جس نے افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ گوادر بندرگاہ کے منصوبے سے قدرے خائف ہے جس کی سازشیں رواں دواں ہیں مگر افسوس حکمران آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ ناجانے کیوں؟
پیاروں کی بازیابی کیلئے پیدل قافلہ
Nov 24, 2013