’’ ٹیکس چوری اور دفاعی بجٹ ‘‘

عام تاثر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کی چوری بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے نیز ملکی وسائل کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ ٹیکس کے حوالے سے ایک بہت افسوس ناک بات یہ ے کہ پوری دنیا میں ہم وہ واحد ملک ہیں جو اپنے آپ کو’’ ٹیکس چور‘‘ کہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ملک کے مقابلے میں 22 ایسے ممالک ہیں جن میں حاصل ہونیوالے ٹیکس کی مقدار پاکستا ن کے مقابلے کم ہے ان میں الجیریا، یمن، ایران، اومان، قطر، برما،سعودی عرب، لیبیا، تاجیریا، سوڈان، کموڈ یا چاڈ، ایران، افغانستان، کویت، ہٹی،کونگو، گیبن، بحرین، اور انگولا وغیرہ شامل ہیں۔ مندرجہ بالا ممالک میں حاصل شدہ ٹیکس کا تناسب اُن کی GDP کے حوالے سے پاکستا کے معاملے میں کم ہے لیکن اسکے باوجودہماری حکومت عالمی بینک، آئی ایم ایف، یورپین یونین اور امریکہ کے سامنے ہمیشہ یہی واویلا کرتی ہے کہ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی اصل وجہ عوام کی طرف سے ٹیکسوں کی عدم ادائیگی ہے
اس زمین میں حقیقت یہ ہے کہ Pakistan Census Organisation یعنی پاکستان کے شماریات کے محکمے کیمطابق 2013 میں ہمارے ملک کی کل آبادی184 ملین ریکارڈ کی گئی جن میں96 ملین مرد اور 88 ملین خواتین ہیں۔ ایک اور تنظیم Human Development Index کے مطابق پاکستان کی 60 فی صد آبادی کی یومیہ آمدنی تقریباً 2 ڈالر یا اس سے بھی کم ہے اور ان 110 ملین افراد پر ٹیکس لاگو نہیںہوتا کیونکہ وہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گنوار رہے ہیں۔ باقی 74 ملین افراد جو کہ غربت کی سطح سے اوپر ہیں اُن میں 47 فی صد خواتین ہیں جن میں سے تقریباً 22 فیصد خود کام کاج کر کے اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتی ہیں۔
مزید برآں ملک کی 84 ملین آبادی 19سال سے کم عمر کے افراد اور 11ملین 60 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ 95 ملین افراد ٹیکس کی ادائیگی کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ انکے ذرائع آمدنی یا بہت قلیل ہیں یا وہ خود دوسروں کے دست نگر ہیں نیز ملک میں زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہماری سیاست پر بڑے زمینداروں کی اجارہ داری ہے اور وہ زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ نتیجہ صرف 10 لاکھ کے قریب افراد ٹیکس کی ادائیگی کی زمرے میں آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بااثر لوگ اور امرا پورا ٹیکس نہیں دیتے اور ان سے چند ارب روپے مزید حاصل کئے جا سکتے ہیں مگر اس ملکی معیشت پر کوئی زیادہ مثبت اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
جہاں تک دفاعی بجٹ کا تعلق ہے تو یہ تاثر مکمل طور پر غلط فہمی پر مبنی ہے کہ ملک میں دفاع کیلئے بہت زیادہ رقم مقتص کی جاتی ہے۔ دنیا میں کم از کم چھوٹے بڑے پچاس ممالک ایسے ہیں جن کا دفاعی بجٹ ہم سے زیادہ ہے ۔ ان ممالک میں سے بہت سے ایسے ملک ہیں کہ جن کے سرحدیں پرامن ہیں اور پاکستان کی طرح انکے پڑوس میں بھارت جیسا جارح اور توسیع پسند ملک موجود نہیں۔ دفاعی بجٹ کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1990 کی دھائی میں اس کا حجم GDP کا3.5 فی صد تھا۔ اسکے بعد اس میںلگاتار کمی ہو رہی ہے اور اس وقت اس مد میں مقتص کی گئی رقم GDP تقریباً 2.5فی صد ہے اور ایک دھائی میں اس میں 33 فی صد کمی عمل میں آئی ہے۔
قارئین! ہر محب وطن شہری کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے اور بین الاقوامی برادری میں اُس کا وقاربلند ہو۔ لیکن بہت ہی شر م اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم خود اپنی تذلیل اور بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں ہم واحد ملک ہیں جس کے لیڈز اور سیاسی رہنما اپنے ہی عوام کو ٹیکس چور کے خطاب سے نوازتے ہیں جو کہ حقیقت میں درست نہیں۔ ٹیکس کی مد میں کم آمدنی کی وجہ ہماری کمزور معشیت ہے اور ہماری معیشت کی زبوں حالی متعدد وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے STATE OWNED ENTERPRISESیعنی حکومتی کنڑول میں چلنے والے ادارے جن کی تعداد 200 ہے سالانہ 500ارب روپے ، روزانہ 1.5 ارب روپے اور فی منٹ 10 لاکھ روپے سال بھر ضائع کرتے ہیں اسی طرح اسٹیبلشمنٹ ڈوثرن ایک کروڑ روپے یومیہ اور کینٹ ڈوثرن 3.5 کروڑ روپے روزانہ خرچ کرتے ہیں۔
مزید برآں پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک بہت ہی حساس اور منفرد Geo-Strategic یعنی جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے نیز بدنصیبی سے بھارت جیسا توسیع پسند ملک ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم اپنے دفاع کے حوالے سے قطعی کسی غفلت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔وہ 1971ء میں ہمارے مشرقی حصے کو فوج کشی کر کے ملک سے الگ کر چکا ہے۔ اور اس وقت بھی وہ ہمارے خلاف تخریب کاری میں ملوث ہے خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں وہ افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کر رہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ہمیں ’’اپنے گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں‘‘ اور دفاع کیلئے حسبِ ضرورت رقم بجٹ میں ضرور مہیا کی جانے چاہئے جبکہ پچھلے دس سالوں میں اس میں بتدریج کمی ہوئی ہے جو یقیناً ملکی مفاد میں نہیں۔ حکومت وقت کو اس سلسلے میں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن