جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے جماعت اسلامی کا ملک گیر اجتماع مینار پاکستان میں شروع ہو کر ختم ہو چکا ہو گا۔ اس سلسلے میں سیکریٹری اطلاعات امیر العظیم نے جو معلومات فراہم کیں ان کے مطابق اجتماع میں اڑھائی لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنی شرکت کی اطلاع دی ہے۔ اسکے علاوہ کچھ مقامی لوگ اور وہ لوگ بھی اجتماع میں شامل ہوئے جن کی کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں ہے۔ اس طرح جماعت کے ہیڈ کوارٹر منصورہ نے تقریبٍاًٍتین لاکھ کے قریب اپنے ارکان کی میزبانی کے فرائض ادا کئے۔ پھر ایک نہیں تین دن تک کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال جماعت چونکہ ابتدا ہی سے ایک منظم جماعت ہے اس لئے سیکریٹری اطلاعات پر عزم تھے کہ پریشانی کے باوجود کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہے ۔ جس چیز کا عزم کر لیا جائے یا پھر جو سر پر پڑ جائے وہ ہو کر ہی رہتی ہے۔جماعت یہ سہ روزہ اجتماع دراصل اپنی سماجی اور سیاسی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے منعقد کرتی ہے۔اس سے دوسری جماعتوں کو بھی اسکی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔جماعت اسلامی بڑے سے بڑا اجتماع کرنے میں خاص شہرت رکھتی ہے کبھی ان کے جلسے ن لیگ کے سرکاری جلسوںاور تحریک انصاف کے لا ابالی جلسوںسے بھی بڑے ہوا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اپنے زمانے میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے اور جلسے جلوس کے ماسٹر سمجھے جاتے تھے وہ بھی اسوقت کے امیرجماعت میاں طفیل کے جلسے دیکھ کر ششدر رہ جاتے تھے۔ میاں طفیل کو جلسے ، جلوسوں سے زیادہ رغبت نہیں تھی مگرقاضی حسین احمد نے ضیاءالحق کے آخری دور اور بے نظیر بھٹو کے ابتدائی دور میں اتنے بڑے بڑے جلسے کئے کہ وہ خود حیران رہ جایا کرتے تھے۔ایک بار ان سے ایک سینئراخبار نویس نے پوچھا کہ قاضی صاحب آپکے جلسوں میں لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے مگر جب بیلٹ باکس کھلتے ہیں تو اس میں سے آپکے ووٹ نہیں نکلتے، آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ قاضی صاحب نے سادگی سے جواب دیا یہی بات تو ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔لوگ ہمارے جلسوں میں آتے ہیں تو پھر ووٹ کیوں نہیں دیتے۔ از راہ مذاق انہیں بتایا کہ لوگ آپ سے ڈرتے ہیں کہ آپ آ گئے تو سب کو داڑھیاں رکھا دیں گے، خواتین کو شٹل کاک برقعے اوڑھا دیں گے، شرابیوں کو اسی اسی کوڑے ماریں گے، زانیوںکو سنگسار کریں گے، جواریوں کو جیل بھجوا ئیں گے۔ شریعت نافذ ہو گی تو سزائیںتو کڑی ہوں گی۔ اس پر قاضی صاحب مسکرائے، کہنے لگے جانتا ہوں ملک میں گناہگاروں کی افراط ہے۔
مگر شریعت کے نفاذ کے لئے داڑھی اور شٹل کاک برقعے ہماری اولین ترجیح نہیں ۔دیگر جرائم کےلئے اسلامی قوانین پر عمل تو ہو گا مگر لوگ شراب نوشی اور بدکاری جیسے جرائم سرعام کیوں کرتے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو سزا تو ہو گی سزائیں تو ابھی بھی مقرر ہیں مگر ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا اگر لوگ اس وجہ سے ووٹ نہیں دیتے کہ ہم گناہ گار کو سزا دےں گے تو پھر انکی مرضی نہ دیں ،سزا تو ملے گی ۔ قاضی حسین احمد کا دور جو1987سے شروع ہو کر2008میں ختم ہوایہ جماعت اسلامی کی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز دور تھا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ان کی اہلیہ اور صاحبزادی بھی خواتین کے حلقوں میں بڑی مقبول رہیںاور منصورہ اور پشاور میں اکثر محافل ِ میلاد اور دینی اجتماعات کا انعقاد کرتیں نظر آتیں ۔
دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ، قائداعظم کی مسلم لیگ کے بعد برصغیر میں دوسری پرانی اوربڑی جماعت تھی جسکی بنیاد جیّدعالم ِ دین ، عالمی مفکر اور تفہیم ِ القرآن کے خالق مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے26اگست 1941کواسلامیہ پارک لاہور میں رکھی ۔اس لحاظ سے جماعت کو قائم ہوئے73برس ہو چکے ہیں ۔پاکستان میں اس وقت کوئی بھی مذہبی یاسیاسی جماعت اتنی لمبی تاریخ نہیں رکھتی۔ قائداعظم کی مسلم لیگ کے بھی قیام ِ پاکستان کے بعد بٹوارئے ہو گئے تھے اور اس وقت اسکا عملاً کوئی وجود نہیں۔ ابتداءمیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تعداد صرف75تھی جو2003 میں 45لاکھ تک جا پہنچی اور اب11سال مزید گزرنے کے بعد باور کیا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد 60سے70لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہو گی جبکہ عمران خان جو اس وقت پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ہونے کے دعویدار ہیں یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی کو گزشتہ انتخابات میں80لاکھ ووٹ ملے تھے اور اگر انتخابی دھاندلی نہ ہوتی تو یہ تعداد دوگنی ہوسکتی تھی۔ یہ بہرحال ان کی خوش گمانی ہے تاہم انھوں نے اب تک جو جلسے کیے ان میں کہیں بھی شرکا کی تعداد لاکھ ڈیڑھ لاکھ سے نہیں بڑھ سکی ۔مگر جماعت کے حالیہ اجتماع کو ہی دیکھ لیجئے مینار پاکستان اور گردونواح میں شرکا کےلئے جگہ کم پڑ گئی ہے ۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنے حجم کے لحاظ سے پی ٹی آئی سے بڑی جماعت نہ سہی اس کے ہم پلہ ضرور ہے۔ اور جہاں تک تنظیم کا تعلق ہے تو جیسا نظم و نسق جماعت کی صفوں میں نظر آتا ہے کوئی دوسری جماعت اس کی ہمسری نہیں کر سکتی ۔سوال پھر وہی اٹھتا ہے جو قاضی حسین احمد نے چند سال پہلے اٹھایا تھا کہ پھر ہمیں ووٹ کیوں نہیں ملتے جماعت کوبہرحال اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ان کا منشور ایسا ہے اور یہ با ت غلط بھی نہیں کہ پاکستان ایسے کرپٹ معاشرے میں یہ منشور عام لوگوں سے ہضم نہیں ہوتا جس طرح بانیِ جماعت مولانا مودودی نے برطانوی راج کی مخالفت کی تھی اسی طرح جماعت اسلامی کا منشور ہمارے مروجہ طرز ِ زندگی میں فٹ نہیں ہوتا لیکن آفرین ہے کہ جماعت مسلسل جدو جہد کے راستے پر گامزن ہے۔ جماعت اسلامی کو کرش کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے کئی اقدامات کیے حتیٰ کہ جماعت کے ایک اہم رہنما نذیر احمد کو قتل کر دیا گیا جماعت کے کئی ارکان کو جیل بھجوایا گیا۔ اسلامی جمعیت طلبا کے کئی کارکنوں کونظر بند کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ بھٹو جانتے تھے جب بھی ٹف ہینڈ ملا جماعت کی طرف سے ہی ملے گا 1977 . میں انتخابی دھاندلیوں کے خلا ف پی این اے کی تحریک چلی تو جماعت اسلامی اس کی سر خیل تھی ۔بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو جماعت نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ایک اس لئے کہ90دن میں انتخابات کا وعدہ تھا اور دو م اس لئے کے ضیا الحق صوم وصلواة کے پابند تھے لہذا یہ قیاس کیا گیا وہ قول و فعل کے بھی سچے ہونگے ۔جماعت نے افغانستا ن میں سوویت جنگ کے دوران ضیا الحق کے جہاد کو سپورٹ کیا جماعت کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے اس جہاد میں حصّہ بھی لیا ،بعد میں قول و فعل کے تضاد کے باعث جماعت ضیا الحق سے الگ تھلگ رہی۔ پھر2002میں پرویز مشروف کے دور میں جماعت نے متحدہ مجلس عمل تشکیل دی جسمیں تما م مذہبی و سیاسی جماعتیں شامل ہوئیں ۔ایم ایم اے نے قومی اسمبلی میں 53نشستیں حاصل کیں ۔ایم ایم اے دہشت گردی کی امریکی جنگ اور پاکستان میں امریکی افواج اور ایجنسیوں کی موجودگی کے خلاف رہی اور پھر اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے لال مسجد اور جامع حفصہ کے المناک واقعہ پر قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ۔قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن جماعت کے امیر منتخب ہوئے وہ راسخ العقیدہ ، انتہائی ایماندار اور دیانتدار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص ذہن کے مالک تھے ان کے دور میں جماعت اسلامی نسبتا ً جمود کا شکار رہی ۔30مارچ 2014کو سراج الحق امیر جماعت بنے ان کے آنے سے جماعت ایک بار پھر متحرک ہوئی وہ جماعت اسلامی کو بلاشبہ عوامی جماعت بنانے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ وہ خیبر پختونخوا کی سینئیر وزارت سے استعفیٰ دے کر اپنی جماعت کو فعال کر نے کےلئے واپس آئے ہیں اس لیے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت کو اعتدال پسندی کی طرف لائیں گے اور معاملات کو ان کی سپرٹ کے مطابق چلائیں گے انھوں نے دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر نے کی بھی کوشش کی اب بھی وہ دونوں فریقوں کے لئے غیر متنازعہ ہیں اس لئے کسی بھی وقت ان سے کوئی بڑا اقدام متوقع ہے ممکن ہے کہ حالیہ اجتماع میں جماعت کو فعال اور متحرک کرنے کےلئے چند اہم فیصلے کیے ہوں لیکن ایک بات ان سے عقیدت رکھنے والوں کو کھلتی ہے کہ وہ اپنی تقاریر میں بعض اوقات نیلسن منڈیلااور ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے وہ ان کے ہیرو ہوں جماعت اسلامی کے پیرو کار اور سراج الحق سے عقیدت رکھنے والے لوگ ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نبی پاک ﷺ کے ارشادات کو فالو کریں گے اور قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان کو ایک رفاہی اور فلاحی مملکت بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے ۔۔۔ انشاءاللہ ۔۔۔