اسلام آباد+نئی دہلی (سہیل عبدالناصر+ سٹاف رپورٹر+ثناء نیوز) نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں اٹھارہویں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور انکے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان غیر رسمی بات چیت کے قومی امکانات ہیں جبکہ یہ امکان بھی موجود ہے سربراہ کانفرنس سے پہلے وزراء خارجہ کے اجلاس کے موقع پر سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان ملاقات ہو سکے۔ ایک سفارتی ذریعہ کے مطابق ہر سارک سربراہ کانفرنس کے دوران قریبی سیاحتی مقام پر ’’سٹیک آئوٹ‘‘ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر سارک سربراہان باہم اکٹھے ہو کر خوش گپیاں کرتے ہیں، سنجیدہ تنظیمی یا دوطرفہ امور کو ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سٹیک آئوٹ ماضی میں بھی پاکستان بھارت سربراہان حکومت کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی کے باعث اس سٹیک آئوٹ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جہاں سربراہان کیلئے ایک دوسرے سے گریز کرنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اٹھارہویں سارک سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ یہ کانفرنس بدھ اور جمعرات کو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقد ہو رہی ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی ہو گی۔ کانفرنس کا مرکزی موضوع ’’امن و ترقی کیلئے خطے کی بھرپور یکجہتی‘‘ ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے پاکستان سارک تنظیم کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جنوبی ایشیا 21 ویں صدی کیلئے عالمی معیشت کا انجن بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری پہلے ہی کھٹمنڈو میں موجود ہیں جو ابتدائی اجلاسوں میں ملک کی نمائندگی کریں گے جبکہ وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز وزراء کانفرنس میں شریک ہوں گے۔بھارتی دفتر خارجہ نے سارک سربراہ کانفرنس میں وزیراعظم نوازشریف اور انکے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی ملاقات کو خارج ازامکان قرار نہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کانفرنس میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان رسمی ملاقات ہوسکتی ہے۔ نئی دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے کہا پاکستان نے سارک کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کی درخواست نہیں کی لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان سمیت تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہان سے بامعنی مذاکرات کے خواہشمند ہیں اور وہ پاکستان سے پرامن اور دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا بھارت پاکستان سے تجارتی اور معاشی سمیت تمام شعبوں میں بہتر تعلقات کا خواہشمند ہے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی مذاکرات کے آغاز کیلئے بھارت اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا ہے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پیشرفت کیلئے پاکستان اور بھارت کے پاس صرف شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور ہی دو راستے ہیں۔ نوازشریف کی طرف سے اوباما کو بھارتی قیادت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اٹھانے کی درخواست کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا دونوں ملکوں کے پاس پر امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کیلئے صرف دوطرفہ طریقہ کار موجود ہے۔