پھر کالا باغ ڈیم پر سیاست

یہ میرا ہی نہیں، پوری قوم کا استفسار ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادتوں میں ملکی اور قومی مفادات کی ترجمانی، وکالت اور نگہبانی کا جذبہ کب پیدا ہو گا، کب چمکائی جانے والی سیاسی دکانداریوں پر قومی مفادات والا سودا بغیر کسی ملاوٹ کے دستیاب ہو پائے گا اور کب ہماری سیاسی قیادتیں ملکی اور قومی مفادات پر ہرگز مفاہمت نہ کرنے کے عزم پر کاربند ہوں گی۔ اگر ہماری سیاسی قیادتیں قاعدے، قانون اور اصولوں کی سیاست کو اپنا مطمع¿ نظر، ایجنڈہ اور منشور و دستور قرار دیتی ہیں تو پھر اس میں جھول کیوں پیدا ہو جاتا ہے، منافقت کیوں در آتی ہے، مفاہمت کیوں جھلکنے لگتی ہے۔ مجھے ہی نہیں، پوری قوم کو اس وقت کالا باغ ڈیم پر جاری قومی سیاسی قائدین کی منافقانہ، مفاہمانہ سیاست سے بیزاری ہو رہی ہے۔ اصولوں کے ڈنکے بجانے والے عمران خان نے گزشتہ سال کے انتخابات کی مہم کے دوران کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی پارٹی کے منشور میں شامل کیا اور ملتان کے جلسہ عام میں اس کا باضابطہ اعلان کیا تو مجھے یک گونہ اطمینان ہُِوا تھا کہ عوام نے انتخابات میں عمران خان کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تو ہمارے دشمن کی سازشوں کی بھینٹ چڑھنے والے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ عوام نے انہیں خیبر پی کے میں حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تو ان کے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے اپنا پہلا پالیسی بیان کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دینے کا جاری کیا، عمران خان نے اپنے وزیر اعلیٰ کے اس بیان کا قطعاً نوٹس نہ لیا تو ان کے پارٹی منشور میں شامل کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ اسی وقت اپنی موت آپ مر گیا جبکہ عمران خان نے انتخابات کے بعد قوم کو یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ روایتی سیاستدانوں کی طرح محض سیاسی شعبدہ بازی کے تحت قوم کے دل جیتنے کے لئے لگایا تھا۔ ان کی تبدیلی کی سیاست میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے خیبر پی کے حکومت کی پیشرفت سے قوم کو یقین ہو سکتا تھا کہ عمران خان فی الواقع قومی تعمیر و ترقی کا درد رکھتے ہیں اور اس مقصد کے تحت ہی وہ سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں مگر انہوں نے دو روز قبل لاڑکانہ کے جلسہ عام میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو سندھی عوام کی رضامندی کے ساتھ مشروط کر کے ہماری منافقانہ روایتی سیاست میں اپنے کاربند ہونے کا بھی قطعی اعلان کر دیا۔ بھئی اصول تو اصول ہی ہوتا ہے آپ نے اصولی طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ملکی ضرورت کے تحت بیڑہ اٹھایا تو یہ اصول خیبر پی کے اور سندھ کی سیاست میں ہرگز کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر عوام کیوں نہ آپ کے بارے میں بھی یہی نتیجہ اخذ کریں کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔
اب خیر سے مفاداتی سیاست کے پٹے مُہرے ق لیگ کے قائدین نے سیاسی دکانداریوں میں راندہ¿ درگاہ بنائے گئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کا باضابطہ اعلان چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے گزشتہ روز اپنے بہاولپور کے جلسہ عام میں کیا تو اس پر بھی قوم کا شش و پنج میں پڑنا فطری امر ہے کہ اس نعرے میں ان کا کوئی اخلاص بھی موجود ہے یا یہ بھی ان کی صوبہ جنوبی پنجاب جیسی سیاسی شعبدہ بازی ہے جس کا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ہو کر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی زیادہ زور سے طبلہ بجاتے رہے مگر اب شاید اس طبلے میں کیڑے پڑ چکے ہیں کہ صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ ان کی زبانی پر چڑھتا دکھائی ہی نہیں دیتا، اب وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے چھوٹے صوبوں کے پاس جا کر ان کے آگے ہاتھ جوڑنے اور انہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر قائل کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں تو دل پھر وسوسوں سے بھر گیا ہے کہ ریاکاری کے بوجھ تلے دبی ہماری سیاست میں سے دیانت، سچائی اور اصول پرستی کا کوئی شائبہ بھی ڈھونڈ کے نکال لانا جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آتا ہے۔
مشرف کی سرپرستی حاصل ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی زرداری گروپ سے قاتل لیگ کا خطاب پانے والی مسلم لیگ (ق) کے پاس مشرف کے اقتدار میں شراکت کے دوران کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنانے کا نادر موقع موجود تھا کہ جنرل مشرف خود بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر چکے تھے مگر اپنے اس عہدِ اقتدار میں ان حضرات کو کالا باغ ڈیم کا لفظ بھی زبان سے ادا کرنے کی توفیق گوارا نہ ہوئی، اب آپ حضرات اپوزیشن کی سیاست میں بھی راندہ¿ درگاہ ہو کر کالا باغ ڈیم کا ڈھول بجا رہے ہیں تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ آپ آئندہ کسی دور میں اقتدار میں آ کر اپنے اس عہد اور عزم پر کاربند رہیں گے کیونکہ ہیر پھیر کی اس مفاداتی سیاست میں گڈمڈ ہوتی قوم کی یہ کیفیت بن چکی ہے کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
میں گذشتہ روز وقت نیوز چینل کے لائیو ٹاک شو ”نیوز لاﺅنج“ میں پروگرام کی ہوسٹ عرفانہ سعید کے ساتھ کالا باغ ڈیم کے ایشو پر ہی گفتگو کر رہا تھا کہ اس دوران بنوں سے ایک صاحب کی کال موصول ہوئی جو توانائی کے جاری بحران کے تناظر میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی ضرورت کا احساس دلا رہے تھے۔ مجھے اس کال پر کافی حوصلہ ہوا جس کا میں نے پروگرام میں اظہار بھی کیا کیونکہ مفاداتی سیاستدانوں نے سندھ اور خیبر پی کے کے عوام کے نام پر ہی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی سیاست کو چمکایا ہے اور یہ تاثر دیا ہوا ہے کہ اس ڈیم سے صرف پنجاب کے عوام کو فائدہ ہو گا۔ اے این پی کے قائد ولی خان تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں اسے ڈائنامائیٹ مار کر اڑانے کے نعرے لگاتے لگاتے مر گئے جن کے سیاسی ورثاءنے گذشتہ اسمبلی میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے مراحل میں بلیک میلنگ کی انتہا کر کے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف کو بھی اپنے ساتھ ملایا اور پھر باہمی کاوشوں سے کالا باغ ڈیم کی فائل اس وقت کی حکمران پیپلز پارٹی کے ہاتھوں دریائے سندھ کی نذر کرا دی جس کے لئے خود پیپلز پارٹی بھی اپنے سندھی ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے پہلے سے تیار تھی۔ چودھری برادران اسی اسمبلی میں حکومتی حلیف تھے اور چوہدری پرویز الٰہی تو نائب وزیراعظم بھی بن بیٹھے مگر سندھ بُرد کی گئی کالا باغ ڈیم کی فائل ان کی نظروں سے اوجھل ہی رہی، اب وہ کس منہ سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھا رہے ہیں۔
ہماری مفاداتی سیاست کے اسیران سارے قومی سیاسی قائدین کو کم از کم اپنے دشمن ملک بھارت کے سیاستدانوں سے ہی اصولی سیاست کا تھوڑا بہت سبق حاصل کر لینا چاہئے کہ وہ اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں تک بھی لے جاتے ہیں مگر وطن پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جس کے باعث وہ ملکی اور قومی مفادات کے خلاف کوئی پالیسی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے چہ جائیکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر کسی قومی منصوبے کی تعمیر رکوانے کے لئے لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑتے نظر آئیں۔ بھارت نے پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کی نیت سے ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں کو پیسے کی چمک دکھا کر استعمال کیا تو کیا ہماری مفاداتی سیاست کو بھی کالا باغ ڈیم کی فائل کی طرح دریائے سندھ میں نہیں ڈبو دینا چاہئے۔ جن حضرات کو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا شوق ہے وہ سندھ اور خیبر پی کے میں اس پر ریفرنڈم کرا لیں، بنوں کے لائیو کالر سے ملنے والے حوصلے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان دونوں صوبوں کے عوام کالا باغ ڈیم کے مخالف مفاداتی سیاستدانوں کو خود ہی دریا بُرد کر دیں گے۔ جناب! کالا باغ ڈیم کے حق میں خیبر پی کے کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک سے بڑی گواہی تو اور کوئی نہیں ہو سکتی جو کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو آج بھی مناظرے کا چیلنج کر رہے ہیں۔ میانوالی کے اورنگ زیب خان نے تو عرصہ دراز سے کالا باغ ڈیم کی وکالت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے چنانچہ ان کی تحریک اور سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین سلمان خاں کی کوششوں سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی کالا باغ ڈیم کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ کاش منافقت کی سیاست کے اسیر سیاستدانوں کے منافقت کے لبادے تار تار ہو جائیں تاکہ قوم انہیں ان کے اصل رنگ میں تو دیکھ سکے۔ اب کالا باغ ڈیم پر ہمیں دلفریب نعروں کی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے کیا ق لیگ کے اقتدار کا انتظار کیا جائے؟ جس کا دور دور تک ابھی کوئی امکان ہی نظر نہیں آ رہا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...